برصغیر انڈیا اور پاکستان میں موسم گرما کی آمد کے ساتھ ہی بازار مختلف قسم کے آموں کی مہک سے بھر جاتے ہیں۔ آم کے شوقین پھلوں کے بادشاہ کا مزہ چکھنے کے لیے اس موسم کا بے صبری کے ساتھ انتظار کرتے ہیں۔
اس وقت مارکیٹ میں آموں کی بہت سی اقسام دستیاب ہیں، ہاپوس، کیسر، لنگڑا، طوطا پری، دسہری وغیرہ۔
تاہم یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ان آموں کو قبل از وقت کھانا ہماری صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
انڈیا میں فوڈ کی ريگولیٹری اتھارٹی ایف ایس ایس اے آئی کے مطابق آم پکانے کے لیے کیلشیم کاربائیڈ کے استعمال پر سنہ2011 سے پابندی عائد ہے تاہم بہت سے تاجر آم کو قبل از وقت پکا کر عوام کی صحت سے کھیل رہے ہیں۔
پھلوں کے پکنے کا عمل کیمیائی مادوں کے استعمال سے تیز ہوتا ہے اور اس ضمن میں کیلشیم کاربائیڈ سب سے زیادہ استعمال ہونے والا کیمیائی مادہ ہے۔
فوڈ سیفٹی اینڈ سٹینڈرڈز (فروخت کی ممانعت) کے سنہ 2011 کے قاعدہ 2.3.5 کے مطابق پھل پکانے کے لیے کیلشیم کاربائیڈ کے استعمال پر پابندی ہے۔
اس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ‘کوئی بھی شخص کاربائیڈ سے پکا ہوا پھل فروخت نہیں کر سکتا۔’
ایف ایس ایس اے آئی نے ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے فرٹیلائزر پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹس سے کہا ہے کہ وہ اس معاملے میں ہوشیار اور خبردار رہیں اور ایف ایس ایس اے آئی ایکٹ 2006 کے تحت ایسی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث مجرموں کے خلاف سخت کارروائی کریں۔
کیلشیم کاربائیڈ سے آم کیوں پکایا جاتا ہے؟
آم کے علاوہ کیلشیم کاربائیڈ کیلے، لیچی وغیرہ کو پکانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
یہ کیمیکل پھلوں کو قبل از وقت تیار کر کے فروخت کرنے، منافع کمانے اور انھیں جلد پکنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ کیمیکل پھلوں کے ذخیرہ کرنے کی مدت میں بھی اضافہ کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر، آم کے باغ سے منڈی تک پہنچتے پہنچے ان کی چمک کم ہوتی جاتی ہے۔
اس لیے آم کو پکنے سے پہلے توڑا جاتا ہے. اور کیلشیم کاربائیڈ لگانے کے بعد بازار میں بھیج دیا جاتا ہے۔
بی بی سی نے راجکوٹ گجرات میونسپل کارپوریشن کے محکمہ صحت کے سربراہ جیش وکانی سے اس کے متعلق تفصیل سے بات کی ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ‘آم ایک ایسا پھل ہے. جو پکنے کے بعد دو سے تین دن میں خراب ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
‘اگر اسے درخت پر قدرتی طور پر پکنے دیا جائے. تو یہ فوراً خراب ہو جائے گا۔ اس لیے اسے جلدی سے نکال لیا جاتا ہے، اور جب تاجر کو بیچنا ہوتا ہے تو اسے مطلوبہ مقدار میں مناسب طریقے سے پکایا جاتا ہے۔
فوڈ سیفٹی اینڈ سٹینڈرڈز اتھارٹی آف انڈیا نے کھانے کی اشیا کے تاجروں کے لیے. سخت ہدایات جاری کی ہیں۔
جمعرات کو اتھارٹی نے تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے فوڈ کمشنروں سے کہا کہ وہ پھل پکانے میں کیلشیم کاربائیڈ کے غیر قانونی استعمال کے خلاف سخت کارروائی کریں۔
کیلشیم کاربائیڈ کیا ہے؟
کیلشیم کاربائیڈ ہوا میں نمی کے ساتھ رد عمل ظاہر کر کے ایسیٹیلین بناتا ہے. جو ایتھیلین کی طرح کام کرتا ہے۔ ایتھیلین ایک قدرتی ہارمون ہے جو پھلوں میں موجود ہوتا ہے اور انھیں پکنے میں مدد دیتا ہے۔
کیلشیم کاربائیڈ ایسیٹیلین گیس خارج کرتی ہے جس میں آرسینک اور فاسفورس جیسے خطرناک کیمیکلز ہوتے ہیں۔
ان کیمیکلز کو مسالہ بھی کہا جاتا ہے۔
اس بات کا امکان ہے کہ کیلشیم کاربائیڈ کے استعمال کے دوران پھل ان کیمیکلز کے ساتھ براہ راست رابطے میں آ سکتا ہے۔ نتیجے کے طور پر، پھل میں ان کے نشانات ظاہر ہوسکتے ہیں۔
کیلشیم کاربائیڈ کاربن کی ٹھوس شکل ہے۔ جب اسے پھلوں میں ملایا جاتا ہے تو یہ گہرا رنگ دیتا ہے۔
یہ ٹھوس شکل میں پیکٹوں میں آتا ہے۔ لہٰذا جب اسے پھلوں پر چھڑکایا جائے تو یہ گھل جاتا ہے۔ کچھ پھلوں میں اس کی تھوڑی مقدار ہی کافی ہوتی ہے جبکہ کچھ میں اسے زیادہ مقدار میں دیا جاتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے. کہ ’جب کیمیکل کو پھلوں میں موزوں مقدار سے زیادہ مقدار میں شامل کیا جاتا ہے. تو خطرہ بڑھ جاتا ہے۔‘
کیلشیم کاربائیڈ صحت کو کیسے متاثر کرتا ہے؟
حالیہ تحقیق (ہیلتھ کرائسس) کے مطابق کیلشیم کاربائیڈ سے پیدا ہونے والا ایسٹیلین دماغ کو آکسیجن کی فراہمی میں رکاوٹ بنتا ہے۔ اس کے علاوہ کیلشیم کاربائیڈ ہمارے اعصابی نظام کو بھی متاثر کرتا ہے۔
معدے میں داخل ہوتے ہی قے، اسہال کی شکایت ہو سکتی ہے اور مریض کوما میں بھی جا سکتا ہے۔
طویل المدتی اثر میں یہ موڈ کو متاثر کر سکتا ہے اور انسان کے دماغ کو متاثر کر سکتا ہے۔
ایف ایس ایس اے آئی کے مطابق: ’جب آموں کو کیلشیم کاربائیڈ میں پکایا جاتا ہے تو اس سے ایسیٹیلین پیدا ہوتی ہے جس میں آرسینک اور فاسفورس جیسے خطرناک عناصر ہوتے ہیں۔‘
’یہ اجزاء، جنھیں مسالے کے نام سے جانا جاتا ہے اس کی وجہ سے چکر آنا، بار بار پیاس لگنا، کمزوری محسوس کرنا، نگلنے میں دشواری ہونا، قے کی شکایت ہو سکتی ہے اور یہ جِلد کی رنگت کو متاثر کر سکتے ہیں۔‘
پیراگ پنڈت کے مطابق کیلشیم کاربائیڈ بنیادی طور پر دو طرح کے مسائل کا سبب بنتا ہے۔
’سب سے پہلے اس میں آرسینک مرکبات ہوتے ہیں، جو صحت کے لیے مضر ہیں۔ آرسینک کینسر کا سبب ہے۔ اسے پھلوں پر زیادہ مقدار میں سپرے کیا جاتا ہے جس سے صحت کے لیے خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ دوسرے یہ کہ جب کیلشیم کاربائیڈ ہائیڈرو کاربن گیس خارج کرتا ہے تو یہ پھٹ بھی سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، آسمانی بجلی یا آگ کے دھماکے کی طرح۔‘
ایسٹیلین ایک انتہائی رد عمل والا ظاہر کرنے والا عنصر ہے۔ اور یہ زیادہ تر ویلڈنگ سے متعلقہ صنعتوں میں استعمال ہوتا ہے۔ صنعتی طور پر استعمال ہونے والی کیلشیم کاربائیڈ میں آرسینک اور فاسفورس ہوتا ہے، جو صحت مند پھلوں کو زہریلا کر سکتا ہے۔
کیلشیم کاربائیڈ سے پکے آم کی شناخت کیسے کی جائے؟
اس بارے میں بات کرتے ہوئے جیش وکانی کہتے ہیں: ’بازار میں دستیاب آموں میں سے 99 فیصد مصنوعی طریقے سے پکائے جاتے ہیں۔ اصل چیز یہ جاننا ہے کہ آم کو کیلشیم کاربائیڈ یا ایتھیلین سے پکایا گیا ہے یا نہیں۔‘
ایک ایس ایس اے آئی کے مطابق اگر عالمی سطح پر استعمال ہونے والے کیمیکل استعمال کیے جائیں تو یہ پھل کھانے میں محفوظ تصور کیے جاتے ہیں۔
وکانی بتاتے ہیں کہ کیلشیم کاربائیڈ سے پکے ہوئے آم پر سفید دھبے آ جاتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں: ’جب آموں کو کیلشیم کاربائیڈ سے پکایا جاتا ہے، تو پھل غیر مساوی طور پر پکتے ہیں۔ پھل کا جو حصہ کیمیکل کے رابطے میں آتا ہے وہ پیلا ہو جاتا ہے اور دوسرا سبز رہتا ہے۔ اسی لیے بازار میں زیادہ تر آم سبز پیلے ہوتے ہیں۔ جب کہ ایتھیلین سے پکے ہوئے آم ایک ہی رنگ کے ہوتے ہیں۔‘
اسی طرح، کیلشیم کاربائیڈ کے ساتھ پکائے گئے کیلے کا ذائقہ کچھ تیز ہو سکتا ہے اور کھانے پر زبان میں سوجن ہو سکتی ہے۔‘
پھر تاجر آم کیسے پکائیں؟
پھلوں کے پکنے میں کیلشیم کاربائیڈ کے بڑھتے ہوئے استعمال کے پیش نظر ایف ایس ایس اے آئی نے ایک محفوظ متبادل کے طور پر ایتھیلین کے استعمال کی اجازت دی ہے۔
اس کے مطابق پھلوں کی قسم اور اس کے پکنے کی سطح کے لحاظ سے پھلوں کو پکانے کے لیے 100 پی پی ایم تک اس کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ایتھیلین ایک قدرتی ہارمون ہے جو پھلوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ کیمیکل اور بائیو کیمیکل عمل کو شروع اور کنٹرول کرکے پھلوں کے پکنے کے عمل کو منظّم کرتا ہے۔
جب کچا پھل ایتھیلین کے رابطے میں آجائے تو پھل قدرتی طور پر پک جاتا ہے۔ جب تک کہ یہ ہارمون پھل کے اندر قدرتی طور پر بننے نہ لگے۔
اس کے علاوہ سنٹرل پیسٹی سائیڈ بورڈ اور رجسٹریشن کمیٹی نے آم اور دیگر پھلوں کو یکساں طور پر پکانے کے لیے ایتھیفون نامی کیمکل کے 39 فیصد استعمال کی منظوری دی ہے۔
پراگ پنڈت کہتے ہیں: ’اگر تاجر آم کو صحیح طریقے سے پکانا چاہتے ہیں، تو وہ ایتھیلین گیس استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ گیس سلنڈروں میں آتی ہے۔ جو قدرتی طور پر نکلتی ہے۔ حکومت نے اس گیس کی ایک حد مقرر کی ہے، جو کہ استعمال میں محفوظ ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ چونکہ ایتھیلین قدرتی ہارمون ہے اس لیے اس سے صارفین کی صحت کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔
لیکن ایتھیلین کے کسی بھی ذریعے کو پھلوں کے ساتھ براہ راست رابطے میں آنے کی اجازت نہیں ہے۔
کیلشیم کاربائیڈ کے خطرات سے کیسے بچیں؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ آم کو کھانے سے پہلے دھونا چاہیے اور اس کا چھلکا نہیں کھانا چاہیے۔
وکانی کہتے ہیں کہ پھلوں کو اچھی طرح دھونا چاہیے۔ اوپر سے کاربائیڈ چھڑکا جاتا ہے اس لیے سیاہ حصہ نہیں کھایا جانا چاہیے۔
ایک بہتر طریقہ یہ ہے کہ پھل براہ راست کسان سے خریدیں اور انھیں پکنے کے لیے گھر پر چھوڑ دیں۔
تمام پھلوں میں آم انڈیا معیشت کے لیے سب سے اہم پھل ہے۔ انڈیا آم کی پیداوار میں سرفہرست ملک ہے۔
انڈیا میں تقریباً 2400 ہزار ایکڑ آم کے باغات ہیں اور 21.79 ملین ٹن پیداوار حاصل ہوتی ہیں۔
انڈیا میں آم کی تقریباً 1000 اقسام ہیں۔
آم پیدا کرنے والی بڑی ریاستوں میں آندھرا پردیش، اتر پردیش، کرناٹک، بہار، گجرات اور تلنگانہ شامل ہیں۔
F. Aazgxghhgkkjhtdcxmhyylbaayanq hmboobhkt q
W80 ex f qs.
o
We
8
Y,ff