شمالی سويڈن کے اس مقام پر قائم ابیسکو سائنٹیفک ریسرچ سٹیشن کے ڈپٹی سٹیشن مینیجر نے اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’اس علاقے میں ہوا کا غالب رخ مغرب کی طرف ہوتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ بحرِ اوقیانوس سے نم ہوا کو سکینڈینیوین پہاڑوں کے اوپر سے گزرنے کے لیے زیادہ (ٹھنڈی) اونچائیوں پر جانا پڑتا ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو بادل بنتے ہیں اور ہوا نمی کھو دیتی ہے۔ ابیسکو میں، پہاڑوں کے کنارے پر، ہوا خشک ہو جاتی ہے اور کم اونچائی پر کھو جاتی ہے جس سے بادل بکھر جاتے ہیں، اس لیے یہاں بلیو ہول بنتا ہے۔‘
لہٰذا، اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ ابیسکو کا گاؤں میرے اور ایرک جیسے پیشہ ور فوٹوگرافروں کے ساتھ ساتھ ایسے مسافروں کو بھی اپنی طرف کھینچتا ہے جو شمالی قُطبی روشنیاں دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔
فوٹوگرافر اور کاروباری چاڈ بلیکلے کو بھی اسی چیز نے اپنی طرف متوجہ کیا۔ سنہ 2008 میں، نوجوان نوبیاہتا جوڑے کے طور پر، وہ اور ان کی سویڈش بیوی، لینیا، امریکہ میں اپنی کارپوریٹ زندگی میں تبدیلی چاہتے تھے۔
قدرت کو دیکھنے کے شوق اور اپنی بیوی کی ثقافت کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے بلیکلے نے ایبسکو کے نینشل پارک کے ایک ہوٹل میں صفائی کے عملے کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا۔
بلیکلے نے اپنے کریئر کے ابتدائی دنوں میں، ہر ممکن رات نیشنل پارک میں ناردرن لائٹس کی تصویر کشی میں گزاری۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘میں نے بلیو ہول کے بارے میں اپنے تجربے سے جانا۔
‘آپ گاؤں کے اوپر براہ راست بادلوں میں ایک سوراخ دیکھ سکتے تھے، جبکہ افق پر تمام سمتوں میں آسمان اکثر ابر آلود اور برف سے بھرا ہوتا تھا۔’
سنہ 2010 میں، انھوں نے اور لنیہ نے قطب شمالی کی روشنیوں کی سیاحت کے لیے لائٹس اوور لیپ لینڈ نامی ٹور کمپنی شروع کی۔ اور انھوں نے ایسے لوگوں کے لیے جو سویڈن کے اس دور دراز علاقے تک نہیں پہنچ سکتے تھے ایک سٹل کیمرے والا ویب کیم لگا دیا جو ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے چل رہا ہے اور ہر پانچ منٹ میں تصویر کھینچتا ہے اور اس کی سالانے ویؤر شپ آٹھ سے دس لاکھ ہے۔
کمپنی نے بعدازاں ایک براہ راست نشر کرنے والا ہائی ڈیفینشن کیمرہ وہاں نصب کر دیا تاکہ لوگ براہ راست قطبی روشنیوں کا نظارہ دیکھ سکیں۔
بلیکلے بتاتے ہیں کہ ‘ہم نے دس سال سے زائد عرصے تک روزانہ کی بنیاد پر قطبی روشنیوں کو ہر رات واضح اور صاف طور پر دیکھا ہے۔ اور مجھے یہ کہتے ہوئے فخر ہے کہ اس بلیو ہول نے قطب کی روشنیوں کے مشاہدے کے لیے ایبسکو کی ایک ساکھ بنا دی ہے۔’
بلیکلے اس وقت وہاں دنیا کے پہلے رئیل ٹائم 360 ڈگری ہائی ڈیفنیشن کے کیمرہ لگانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ جس کے بعد ناظرین ورچوئل رئیلٹی کے چشمے استعمال کرتے ہوئے قطب شمالی کی روشنیوں کا نظارہ براہ راست کر سکیں گے۔
ناردرن لائٹس سردیوں کے مہینوں میں ابیسکو کی اہم توجہ ہیں، لیکن یہاں کا بدلتا موسم قدرت کے دیگر شاندار واقعات و تجربات بھی پیش کرتا ہے، جیسے کہ بہت ہی نایاب ‘مون بو’، جسے قمری قوس قزح اور قمری ہیلوز بھی کہا جاتا ہے، جو اس وقت ہوتی ہیں جب چاند کی روشنی پانی کی بوندوں کے ذریعے منعکس اور مُنعطف ہوتی ہے۔ اور بلیو ہول کے ارد گرد ہوا میں برف کے موتی بن جاتے ہیں۔
تاہم انیتا نیا اور یلوا ساری، جو سویڈن کی مقامی سامی برادری سے تعلق رکھتی ہیں، کے لیے ابیسکو اس کے بلیو ہول سے کہیں زیادہ کچھ اور ہے۔
ناروے، سویڈن، فن لینڈ اور روس میں کولا جزیرہ نما کے قطب شمالی خطے میں تقریباً 70,000 سامی رہتے ہیں۔ ان دونوں خواتین نے بچپن سے ابیسکو میں وقت گزارا ہے کیونکہ یہ ان کے خاندانوں کے لیے قطبی ہرنوں کی چراہ گاہ بھی ہے۔
انیتا اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ اس خطے کے بدلتے موسم کے وجہ سے یہاں موسم سرما میں ہلکی برف باری ہوتی ہے، جس کا مطلب ہے کہ بہار جلدی آ جاتی ہے۔ اور پھر برفانی ہرنوں اور دیگر جانوروں کے لیے خوراک میسر ہوتی ہے۔ وہ کہتی ہیں ‘بلیو ہول تو وہ چیز ہے جس کے بارے میں ٹورسٹ کمپنیاں بات کرتی ہیں ہماری سامی برادری کے لیے تو ابیسکو اس سے بہت بڑھ کر ہے۔’
وہ اور ساری کا اب بھی یہاں کی سیاحت سے تعلق ہے کیونکہ 1900 کی صدی کے اوائل میں ان کے آباؤ اجداد یہاں سیاحوں کے لیے پہاڑوں کے گائیڈ ہوا کرتے تھے۔
آج یہ دونوں خواتین ابیسکو میں سکینڈینیوین سامی فوٹو ایڈونچرز نامی ایک سیاحتی کمپنی کی شریک بانی ہیں۔
انتیا نیا کہتی ہیں کہ ‘بطور گائیڈ ہم یہ جانتے ہیں کہ جب ہم میلیجھوکا ندی پر پہنچتے ہیں تو کونجاواگی وادی سے بہتی ہوئی گزرتی ہے تو آپ صرف سو میٹر کے فاصلے پر شدید برف کے طوفان سے صاف آسمان والے علاقے میں داخل ہو سکتے ہیں۔ یہ یہاں کا جادو ہے۔’
اور بالکل ایسا ہی ہوا تھا جب میں اور ایرک ابیسکو پہنچے تھے۔ پہاڑوں پر گہرے برف سے بھرے بادل گھوم رہے تھے لیکن ہمارے سر کے بالکل اوپر ہم صاف نیلا آسمان دیکھ سکتے تھے۔
کئی سال پہلے ابیسکو کے اپنے پہلے سفر پر، مجھے یاد ہے کہ سائنس دان سے فوٹوگرافر بننے والے پیٹر روزن نے مجھے کہا تھا کہ بچوں کو ناچنے والی قطبی روشنیوں کو دیکھنے، سیٹی بجانے یا خوف سے ان کی طرف اشارہ نہیں کرنا چاہیے، ورنہ یہ روشنیاں نیچے آ جائیں گی اور انھیں لے جائیں گی۔
سویڈن میں پلے بڑھے روزن ان کہانیوں کے ساتھ بڑے ہوئے تھے۔ پھر 1998 میں، اومیا یونیورسٹی کے کلائمیٹ امپیکٹ ریسرچ سینٹر کے ساتھ ماحولیاتی محقق کے طور پر ان کا کریئر انھیں ابیسکو لے آیا۔
انھوں نے ابیسکو سائنسی ریسرچ سٹیشن کے ذریعے آرکٹک میں موسمیاتی تبدیلیوں کا مطالعہ کرنے میں 13 سال گزارے۔ (2021 میں، اسے عالمی موسمیاتی تنظیم نے صد سالہ مشاہداتی سٹیشن کے طور پر تسلیم کیا ہے۔)’
جب وہ ابیسکو پہنچے تو روزن کو جلد ہی بلیو ہول کے بارے میں علم ہو گیا تھا اور وہ ناردرن لائٹس کی طرف متوجہ ہو گئے۔ انھوں نے 2001 میں قطب شمال کی روشنیوں کی اپنی پہلی تصاویر تیار کی تھیں، جو اب شمالی سویڈن کی مختلف گیلریوں کا مستقل حصہ ہیں۔’
وہ مذاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘میرے ساتھی مجھے ‘فری ٹائم ریسرچر، اور فل ٹائم فوٹوگرافر’ کہتے تھے۔’
سنہ 2012 میں روزن بطور ماحولیاتی سائسندان اپنا کام چھوڑ کر فوٹوگرافر بن گئے اور لیپ لینڈ میڈیا کمپنی چلانے لگے جو سیاحوں کو یہ سکھاتی ہے کہ قطب شمالی کی روشنیوں کی صحیح تصویر کشی کیسے کی جائے۔
وہ اپنے ایک مہمان سیاح کو یاد کرتے ہیں، جس نے پانچ سال کی عمر سے روشنیوں کو دیکھنے کا خواب دیکھا تھا۔ اس سیاح نے ان روشنیوں کو کینیڈا، ناروے اور فن لینڈ میں ڈھونڈا، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ابیسکو میں اپنی پہلی ہی رات، وہ سیاح یہ روشنیاں دیکھ کر رو پڑی تھیں جسے روزن ایک کمزور روشنیوں کی قوس قزاح سمجھتے تھے۔ مگر اس کے بعد والی راتوں میں، انھوں نے ایک ساتھ روشنیون کا شاندار نظارہ کیا تھا۔
روزن کہتے ہیں کہ ‘یہ دیکھ کر کہ لوگ ان روشنیوں کو دیکھنے کے بعد اپنے جذبات کا اظہار کیسے کرتے ہیں، مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ میرے پاس دنیا کی بہترین نوکری ہے۔ مجھے ایک محقق کی حیثیت سے اپنی زندگی چھوڑنے پر کبھی افسوس نہیں ہوا، کیونکہ میں اب اپنا خواب جی رہا ہوں۔’
مجھے یاد ہے کہ میں نے پہلی بار ابیسکو میں جب ان قطب شمالی کی روشنیوں کو دیکھا تھا جو سطح سمندر سے 900 میٹر بلند پہاڑ نولجا کے دامن میں ہے۔ چوٹی کے قریب ہی دور دراز رورہ سکائی اسٹیشن ہے یہاں سے بیس منٹ کی دوری پر چییر لفٹ ہے۔ یہاں وادی میں ابیسکو اور منجمد جھیل پر چمکتی ہوئی روشنیوں پر پھیلے ہوئے بلیو ہول کو دیکھنے کے لیے اس سے بہتر کوئی جگہ نہیں ہے۔
اس بار، برف کے طوفان سے گاڑی چلا کر یہاں پنچنے اور چیئر لفٹ کے ذریعے تاریکی سے گزرتے ہوئے جیسے ہی میں اور ایرک پہاڑ پر پہنچے، تو اس نظارے نے ہماری آنکھوں کو خیرہ کر دیا جس کا ہم مشاہدہ کر رہے تھے۔ آسمانی سبز روشنیاں ہمارے سروں پر ایسے رقص کر رہی تھیں جیسے انھوں نے جنت کو پردے کی اوٹ میں لے رکھا ہو۔
Ucdbdsiyiudy