پاکستان میں شدید ترین سیلاب کے باعث ملک کے چاروں صوبوں میں متاثرین کی امداد کے لیے مخیر حضرات کے ساتھ عام شہری بھی حسب توفیق حصہ ڈال رہے ہیں۔
حکومتی سطح پر اور متعلقہ اداروں کی جانب سے سیلاب زدہ علاقوں میں امداد پہنچانے کا سلسلہ جاری ہے۔ ہی مگر بڑے شہروں میں سیلاب زدگان کے لیے امدادی کیمپ بھی لگ گئے ہیں۔
اس سلسلے میں ۔مختلف سیاسی و سماجی تنظیمیں بھی۔ متاثرین کی بحالی کے لیے کوشاں ہیں۔
دوسری جانب سیلاب متاثرین کے نام پر غیر رجسٹرڈ تنظیمیں اور نوسر باز بھی متحرک ہو گئے ہیں۔ جو سیلاب زدگان کے نام پر پیسہ اور اشیا اکٹھی تو کر رہے ہیں مگر شکایت یہ ہے۔ کہ وہ متاثرین تک نہیں پہنچ پاتیں۔ اسی ضمن میں پنجاب ڈیزاسٹر حکام کے مطابق ایسے افراد کا راستہ روکنے کی حکمت ۔عملی بنانے کے لیے جمعرات کے روز محکمہ سوشل ویلفیئر سے مل کر اجلاس بلایا گیا ہے۔ جب کہ پشاور میں بھی ضلعی انتظامیہ نے کریک ڈاؤن کا آغاز کر دیا ہے۔
پشاور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے انڈپینڈنٹ اردو کو فراہم کی گئی معلومات کے مطابق پچھلے دو دن میں (اس رپورٹ کے شائع ہونے تک) 129 ایسے کیمپس بند کر دیے گئے ہیں جو کہ غیر رجسٹرڈ شدہ تنظیموں کی جانب سے عطیات جمع کروانے کے لیے لگائے گئے تھے۔
سماجی تنظیموں کے سربراہان کا کہنا ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلنے پر یہ منصوبہ بندی مشکل ہوتی ہے کہ کون ذاتی طور پر فنڈز جمع کر کے۔ غبن کر رہا ہے اور کون حق داروں تک پہنچا رہا ہے۔ اس لیے شہریوں کو چاہیے کہ رجسٹرڈ تنظیموں یا حکومتی اکاؤنٹس کے ذریعے ہی امداد کریں۔
فنڈز خوردبرد ہونے سے روکنے کی حکمت عملی
ڈائریکٹر جنرل پنجاب ڈیزاسٹر میجمنٹ فیصل فرید نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سیلاب ہو یا زلزلہ، اس طرح کی آفت کے موقعوں پر لوگ امدادی سرگرمیاں شروع کر دیتے ہیں۔ مگر صرف حکومت یا رجسٹرڈ تنظیموں یا اداروں کو یہ کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ لیکن ہمدردی کے تحت کچھ لوگ اپنے طور پر امدادی سرگرمیاں شروع کر دیتے ہیں یہ کہہ کر کہ انہیں حمومت یا تنظیموں پر اعتماد نہیں، وہ خود امداد جمع کر کے۔ متاثرین تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ ایسے میں اصل اور نقل کی پہچان مشکل ہوتی ہے۔
فیصل فرید کے بقول 2010 ۔کی طرح اس بار بھی سیلاب متاثرین کے نام پر امداد جمع کر کے غائب کرنے والے۔ نوسربازوں کی شکایات موصول ہوئی ہیں۔
اسی لیے جمعرات کو صوبائی وزیر سوشل ویلفیئر پنجاب کی زیر صدارت ایوانِ وزیرِ اعلیٰ میں اجلاس بلایا گیا ہے جس میں غیر رجسٹرڈ، کالعدم تنظیموں یا پیسے جمع کر کے غائب کرنے والوں کے خلاف حکمت عملی پر غور کیا جائے گا۔
دوسری طرف پشاور میں 29 اگست کو سٹی سب ڈویژن میں 63، شاہ عالم میں 17، پشاور صدر میں 26 اور متنی کے علاقے میں 23 ایسے کیمپ بند کروا دیے گئے جو غیر معروف افراد اور غیر رجسٹرشدہ تنظیموں کی جانب سے لگوائے گئے تھے۔