افغانستان اور ایران میں داعش کے اراکین اور پروپگينڈا پھيلانے والوں کی گرفتاریوں کی کئی حالیہ اطلاعات کے بعد، اس گروپ نے اپنے پروپیگنڈے کو متحد کرنے اور اپنے پیغامات کو عام آدمی تک پہچانے کے ليے ہم آہنگ کرنے کی کوششوں میں اضافہ کر دیا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ داعش کی یہ نئی پروپیگنڈہ کوشش گروپ کے ارکان کے درمیان عدم اعتماد اور بے چینی کے جواب میں ہے۔ خیال رہے کہ افغانستان اور خطے میں اس گروہ کے متعدد ارکان کی گرفتاری کے بعد صوبہ خراسان میں داعش گروپ کے درمیان بداعتمادی اور تشویش میں روز بروز اضافہ ہوا ہے۔
جاسوسوں اور مخبروں کا خوف
حال ہی میں داعش کی قیادت نے اپنے ارکان ۔کے درمیان اندرونی جاسوسوں اور مخبروں کی موجودگی کا اعلان کیا۔ گروپ نے خاص طور پر سوشل نیٹ ورک میں ان جاسوسوں کی موجودگی کا اعلان کیا۔ کہ ان کا تعلق داعش گروپ سے ہے اور اپنے پیروکاروں سے کہا کہ وہ اپنی گفتگو میں احتیاط برتیں۔
ان خبروں اور انتباہات میں، داعش نے اپنے اراکین کو بتایا ہے۔ کہ اندرونی جاسوس افغانستان اور پاکستان میں داعش کے مواصلاتی نیٹ ورکس میں خلل ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
العظیم نامی داعش کی سرکاری میڈیا ایجنسی کی طرف سے ان بیانات کی اشاعت نے داعش کے میڈیا کارکنوں میں خوف، اضطراب اور عدم اعتماد کا باعث بنا ہے۔ ان بیانات کی اشاعت کے بعد۔ اس گروپ کے اراکین نے اس مسئلے کے بارے میں ٹویٹر اسپیس (Space) پر متعدد اور طویل مباحثے کیے۔
ان مباحثوں میں، میڈیا پر اثر و رسوخ رکھنے والے دولت اسلامیہ -خراسان کے کارکنوں نے بار بار اس گروپ کے اراکین سے کہا کہ وہ گروپ میں موجود مشکوک افراد اور اکاؤنٹس کی نشاندہی کریں اور انہیں دوسروں کے ساتھ شیئر کریں۔ مزید برآں، گروپ کے ارکان سے کہا گیا ہے۔ کہ وہ مشکوک لوگوں سے بات کرنے سے گریز کریں۔
داعش نے افغانستان۔ میں اس گروہ کے ارکان کی حالیہ گرفتاری اور قتل کے بارے میں کہا۔ کہ یہ واقعات داعش گروہ کی صفوں میں اندرونی جاسوسوں کی موجودگی کا نتیجہ ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا۔ کہ حال ہی میں سوشل نیٹ ورکس پر داعش کے حامیوں کا ایک گروپ نمودار ہوا ہے۔ جو خود کو میڈیا کا اہلکار کہتے ہیں۔ اور ان میں سے کچھ لوگوں نے اپنے آپ کو خراسان وائس میگزین کے ایڈیٹر اور عملے کے طور پر متعارف کیا ہے۔
داعش کی وسطی ايشيا ميں سرگرمياں
اس گروپ کے ارکان نے کہا کہ بوسف تاجکی ۔(وسطی ایشیا میں داعش کی بھرتی، مالی معاونت اور پیغام رساں) کا حالیہ قتل افغانستان میں داعش گروپ کے ارکان میں جاسوسوں کے اثر و رسوخ کی وجہ سے ہے۔
بوسف تاجکی کی موت کی اطلاع ملنے کے فوراً بعد، آئی ایس کے پی سے وابستہ صارف اکاؤنٹس نے تصاویر اور بیانات پوسٹ کیے جن میں ولید عمروف۔ ایک تاجک شہری۔ درانداز اور جاسوس کے طور پر شناخت کیا گیا۔ جو بوسف تاجکی کے قتل کا باعث بنا۔ داعش نے عمروف کی دھوکہ دہی کے بارے میں چار صفحات پر مشتمل دستاویز بھی شائع کی۔ گروپ نے اپنے حامیوں کو خبردار کیا ہے جنہوں نے عمروف سے رابطہ کیا یا اپنی ذاتی معلومات شیئر کیں۔ اور ان سے کہا کہ وہ ایسے لوگوں کے ساتھ معلومات شیئر کرنے سے فوری طور پر گریز کریں۔
سوشل ميڈيا پر رابطے
اسی طرح 15 جولائی کو داعش کے چینلز نے "بلال پشاوری” نامی ایک اور شخص کی تصاویر جاری کیں۔ جس کے بارے میں گروپ نے شبہ کیا کہ وہ ایک درانداز ہے۔ بلال کے بارے میں انتباہات پشتو اور فارسی دونوں زبانوں میں جاری کیے گئے تھے۔ داعش کے پیروکاروں سے کہا گیا تھا۔ کہ وہ مذکورہ سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے رابطوں سے گریز کریں۔
گروپ نے بلال پر جاسوس ہونے کا الزام لگایا اور وہ داعش کی خراساں شاخ کے عسکریت پسندوں کو پکڑنے کے لیے رابطہ کر رہا تھا۔ اس کے بعد 5 اگست کو العظیم فاؤنڈیشن نے اس تصویر کو دوبارہ اپ لوڈ کیا۔ اور اپنے حامیوں سے بلال پشاوری کو تلاش کرنے کو کہا۔ اسی دن، العظیم کی طرف سے ایک اور کی وارننگ جاری کی گئی۔ جس میں ایران سے اپنے اراکین سے کہا گیا۔ کہ وہ اپنی بات چیت میں احتیاط برتیں۔
بیان میں کہا گیا کہ کچھ انٹیلی جنس ایجنسیاں آن لائن آئی ایس کے پی کے حامیوں کے پیچھے ہیں۔ اور انہیں پکڑنے کے لیے دھوکہ دینے کی کوشش کر رہی ہیں۔ داعش کے ارکان میں بے چینی اور عدم اعتماد نے یہاں تک۔ کہ اس کی میڈیا تنظیم العظیم نے المرسلات نامی داعش کے حامی چینل کو بند کر دیا۔ اس گروپ کے دو میڈیا ہاؤس کے درمیان تنازع مشہور سلفی عالم شیخ سردار ولی کے قتل کی رپورٹ کی وجہ سے پیدا ہوا۔
بيرونی دباؤ
بڑھتے ہوئے بیرونی دباؤ اور داعش کی میڈیا قیادت کے اندر انٹیلی جنس کی اطلاعات نے گروپ کو اپنے پیغامات پر توجہ مرکوز کرنے اور اپنے بیانیے کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ جب کہ گروپ کو اپنے اراکین میں عدم اعتماد اور بڑھتے ہوئے بیرونی دباؤ کا سامنا ہے، اس گروپ کے پاس اب بھی پروپیگنڈا کرنے اور حملے کرنے کی اعلیٰ صلاحیت ہے۔
مثال کے طور پر، پچھلے ہفتے داعش نے ایک نئی کتاب جاری کی اور افغانستان میں افغان شیعہ اجتماعات پر کئی وحشیانہ حملے شروع کیے۔