خواتین کےحقوق کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدامات ضروری، اقوام متحدہ

خواتین
خواتين کا عالمی دن

اقوام متحدہ کے حکام کا کہنا ہے۔ کہ جنگوں اور تنازعات میں سب سے پہلے خواتین ہی متاثر ہوتی ہیں۔ لیکن سفارتی مذاکرات میں ان کی نمائندگی انتہائی کم ہوتی ہے۔ انہوں نے خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے مزید اقدامات پر زور دیا۔

خواتین کے عالمی دن، آٹھ مارچ، کے موقع پر اقوام متحدہ کی خواتین کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیما باہوس نے عالمی برادری پر زور دیا۔ کہ وہ دنیا بھر میں خواتین کی زندگیوں، صحت اور حقوق کے تحفظ کے لیے مزید اقدامات کریں۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں خواتین، امن اور سلامتی کے موضوع پر مباحثے سے خطاب کرتے ہوئے۔ سیما باہوس نے کہا،”ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہم نے نہ تو امن مذاکرات کی میزوں پر بیٹھنے والوں میں کوئی خاص تبدیلی کی ہے۔ اور نہ ہی خواتین اور لڑکیوں کے خلاف مظالم کرنے والوں کو ملنے والے استشنٰی میں کوئی تبدیلی کی ہے۔”

باہوس نے افغانستان میں "صنفی تفریق” کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے خواتین کو عوامی زندگی سے نکال دیا گیا ہے۔ خواتین کو یونیورسٹیوں، پارکوں میں جانے پر پابندی لگادی گئی ہے اور انہیں بہت سی ملازمتوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا، "افغانستان خواتین کے حقوق کو محدود کردینے کی انتہائی مثالوں میں سے ایک ہے، لیکن ایسا کرنے والا یہی واحد ملک نہیں ہے۔”

افغانستان میں یونیورسٹی کی پابندی کے خلاف خواتین کا احتجاج

باہوس کا کہنا تھا کہ یوکرین کے خلاف روس کی جنگ میں ملک چھوڑنے کے لیے مجبور ہونے والے  80 لاکھ یوکرینی باشندوں میں 90 فیصد خواتین اور ان کے بچے ہیں۔ جب کہ یوکرین کے اندر بے گھر ہونے والے لاکھوں افراد میں خواتین اور لڑکیوں کی تعداد تقریباً 70 فیصد ہے۔

خواتین کی شمولیت واحد حل

اقوام متحدہ کی خواتین کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے کہا۔ کہ "اس عمل میں خواتین کی شمولیت کے ساتھ، امن ہی واحد حل ہے۔”

انہوں نے عالمی رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ سن 2000 میں منظور ہونے والی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تاریخی قرارداد کے مطابق کام کریں، جس میں تنازعات کو روکنے اور حل کرنے میں خواتین کے کردار کو اجاگر کیا گیا ہے۔

خواتین کا عالمی دن: لاہور میں حکام نے مارچ پر پابندی لگا دی

امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے بھی اسی جذبے کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا، "میں دنیا بھر میں خواتین اور لڑکیوں پر ہونے والے تشدد اور جبر کی طرف توجہ مبذول کراؤں گی۔ اور جس کا انہیں ایران، افغانستان، روس کے زیر قبضہ یوکرینی علاقوں اور دنیا بھر میں بہت سے۔ دیگر جگہوں پر سامنا ہے۔”

جدید غلامی کيا ہے؟

غير سرکاری تنظيم ‘واک فری‘ کی ايک تازہ رپورٹ کے مطابق موجودہ دور ميں غلامی ايسی صورت حال کو کہا جاتا ہے، جس ميں کسی کی ذاتی آزادی کو ختم کيا جائے۔ اور جہاں کسی کے مالی فائدے کے ليے کسی دوسرے شخص کا استعمال کيا جائے۔

تشدد، جبر، جنسی ہراسگی: جدید غلامی کے انداز

اس وقت دنيا بھر ميں انتيس ملين خواتين مختلف صورتوں ميں غلامی کر رہی ہيں۔ ‘واک فری‘ نامی غير سرکاری تنظيم کی رپورٹ کے مطابق دنيا بھر ميں جبری مشقت۔ قرض کے بدلے کام، جبری شاديوں اور ديگر صورتوں ميں۔ وسيع پيمانے پر عورتوں کا استحصال جاری ہے۔

جنسی استحصال آج بھی ايک بڑا مسئلہ

غير سرکاری تنظيم ‘واک فری‘ کے مطابق موجودہ دور میں جنسی استحصال کے متاثرين ميں خواتين کا تناسب ننانوے فيصد ہے۔

جبری مشقت: مردوں کے مقابلے ميں عورتيں زيادہ متاثر

انٹرنيشنل ليبر آرگنائزيشن اور بين الاقوامی ادارہ برائے ہجرت (IOM) کے تعاون سے اکھٹے کيے جانے والے ‘واک فری‘ نامی غير سرکاری تنظيم کے اعداد کے مطابق دنيا بھر ميں جبری مشقت کے متاثرين ميں عورتوں کا تناسب چون فيصد ہے۔

جبری شادیاں، لڑکيوں کے ليے بڑا مسئلہ

رپورٹ کے مطابق قرض کے بدلے یا جبری شاديوں کے متاثرين ميں خواتین کا تناسب چوراسی فيصد ہے۔

نئے دور ميں غلامی کے خاتمے کے ليے مہم

‘واک فری‘ اور اقوام متحدہ کا ‘ايوری وومين، ايوری چائلڈ‘ نامی پروگرام نئے دور ميں غلامی کے خاتمے کے ليے ہے۔ اس مہم کے ذريعے جبری يا کم عمری ميں شادی کے رواج کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ جو اب بھی 136 ممالک ميں قانوناً جائز ہے۔ يہ مہم کفالہ جيسے نظام کے خاتمے کی کوشش کرے گی۔ جس ميں ايک ملازم کو مالک سے جوڑ ديتا ہے۔

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.