بال کمار کھتری نیپال میں چاول اور مٹر کاشت کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ٹور گائیڈ کے طور پر بھی کام کرتے رہے ہیں۔
لیکن بال کمار کھتری اس بار نیپال کے بلند و بالا پہاڑوں میں سیاحوں کو راستہ دکھانے کے بجائے برطانیہ میں ناٹنگھم شائر کے ایک پلاسٹک کے ٹنل میں سٹرابیری کی فصل کو اٹھا رہے ہیں۔
برطانیہ کو اپنے پھل کو مارکیٹ تک پہنچانے کے لیے ہر سیزن میں مزدورں کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن اس برس ایسے مزدوروں کو ڈھونڈنے کے لیے دور دراز علاقوں میں جانا پڑ رہا ہے۔
برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی سے پہلے موسمی مزدوروں کی اکثریت پولینڈ، رومانیہ اور بلغاریہ سے آتی تھی۔ لیکن اب برطانیہ کو موسمی مزدوروں کی تلاش کے لیے نیپال، تاجکستان، قزاقستان، کرغیزستان، منگولیا اور انڈونیشیا تک جانا پڑ رہا ہے۔
بال کھتری کو یہاں آئے ہوئے زیادہ وقت نہیں ہوا ہے۔ وہ تھوڑی بہت انگریزی بھی بول لیتے ہیں۔
فارم کے مالک خوش ہیں کہ بال کھتری صحیح وقت پر برطانیہ پہنچ گئے ہیں۔
برطانیہ کو موسم گرما میں ہمیشہ موسمی مزدوروں کی کمی کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے لیکن رواں برس یہ شدت اختیار کر چکا ہے۔ کئی کاشتکاروں کو ڈر ہے کہ مزدوروں کی کمی کی وجہ سے اُن کی فصل بروقت مارکیٹ تک نہیں پہنچ سکے گی۔
ریٹفورڈ کے قریب ہارول فارمز کی جینی ٹاسکر ویٹ روز، ٹیسکو اور مارکس اینڈ سپنسر جیسے سپرسٹورز کو کھانے پینے کی اشیا مہیا کرتی ہیں۔ اُن کے پاس ہمیشہ مختلف ممالک سے آئے ہوئے مزدور ہوتے تھے لیکن اس سال ان کے پاس نو مختلف ملکوں سے مزدور آئے ہیں جن میں 35 مزدور نیپال سے، 45 تاجکستان سے اور تین انڈونیشیا سے آئے ہیں۔
جینی ٹاسکر کہتی ہیں کہ نئے مزدور اچھی طرح ماحول میں ڈھل رہے ہیں لیکن کچھ مشکلات ہیں جنھیں دور کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ ’نئے مزدوروں کی تربیت کرنی پڑ رہی ہے جس کی وجہ سے چیزیں آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی ہیں۔‘
دوسروں کی طرح جینی ٹاسکر بھی پریشان ہیں کہ وہ شاید بیری کی فصل اٹھا نہیں پائیں گے اور وہ خراب ہو جائے گی۔
برٹش بیری گرورز کے مطابق برطانیہ میں سافٹ فروٹ یعنی راس بیری، بلیو بیری، گوز بیری کی پیداوار مسلسل بڑھ رہی ہے لیکن اس کے ساتھ فصل خراب بھی زیادہ ہو رہی ہے۔ ’یہ اندازہ لگانا بہت مشکل ہوتا ہے کہ بیری کی فصل کب تیار ہو گی لیکن جب وہ تیار ہو جائے تو اسے اٹھانے میں دیر کی گنجائش نہیں ہے۔‘
’بہت نروس‘
ہارول میں مسٹر کھتری اور ان کے بھائی جیسے کارکنوں کو رہائش فراہم کی جاتی ہے اور تمام مزدوروں کے لیے عارضی گھروں میں مفت وائی فائی کی سہولت بھی مہیا کی گئی ہے۔
برطانوی فارمز محنت کشوں کو سال بہ سال واپس آنے پر آمادہ کرنے کے لیے بہت کوشش کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بریگزٹ کے بعد سے یورپی یونین سے آنے والے مزدوروں کی تعداد کم ہو چکی ہے۔
بریگزٹ، یوکرین کی جنگ اور کووڈ کی وبا کے مجموعی اثر کی وجہ سے ایک برطانوی پارلیمانی کمیٹی نے رواں برس اپریل میں برطانیہ میں خوراک کے شعبے میں مزدوروں کی کمی کا ذکر کرتے ہوئے متنبہ کیا تھا کہ اگر مناسب اقدامات نہ کیے گئے تو برطانیہ میں خوراک کی دستیابی کو خطرات لاحق ہو جائیں گے۔
بی ایس ایف کے چیئرمین نک مارسٹن کا کہنا ہے کہ موسمی کارکنوں کو ویزا جاری کرنے کا عمل تعطل کا شکار نظر آتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ ’لیگ آف نیشنز‘ کے نقطہ نظر کا خیرمقدم کرتے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ انھیں فکر ہے کہ دور دراز سے مزدور بہت دیر سے پہنچیں گے۔
اس سے کاشتکار نروس ہو رہے ہیں۔ ’میں سمجھتا ہوں کہ ابھی ہم بحرانی کیفیت تک نہیں پہنچے ہیں لیکن مجھے بہت تشویش لاحق ہے۔‘
فروٹفل جابز نامی کمپنی کے ڈائریکٹر جسٹن ایمری کہتے ہیں کہ مزدوروں کی ایک بڑی تعداد آنے کے لیے تیار ہے۔ فروٹفل جابز ان چار کمپنیوں میں سے ایک ہے جنھیں موسمی مزدوروں کو بھرتی کرنے کا لائسنس جاری کیا گیا ہے۔
فروٹفل جابز 37 ممالک سے مزدوروں کو بھرتی کر رہی ہے۔ ان مزدوروں کو اپنی ویزا درخواست کے لیے 244 پونڈز کے علاوہ ریٹرن ٹکٹ کے لیے رقم درکار ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بیوروکریسی اور زبان کے مسائل کی وجہ سے ان مزدوروں کی بھرتی کا معاملہ آسان نہیں ہے۔
یوکرین سے آنے والے مہاجرین کی وجہ سے محکمہ داخلہ کے وسائل ادھر لگ چکے ہیں۔ مسٹر ایمری کہتے ہیں کہ انھوں نے اس کمی کو اچھے طرح پورا کیا ہے اور اب لوگ آنا شروع ہو چکے ہیں۔
لیکن یہ سب کو یقین دلانے کے لیے کافی نہیں ہے کہ نیا نظام کام کرے گا۔
ٹم چیمبرز جنوب مشرقی انگلینڈ میں 24 فارموں کے نیٹ ورک کے مالک ہیں، مزدوروں کو بھرتی کرنے والی فرموں سے کہا ہے کہ وہ انڈونیشیا، ویتنام یا فلپائن جیسے ممالک سے کارکن نہیں چاہتے۔
ٹم چیمبرز کہتے ہیں: ’اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ مجھے کسی بھی طرح سے نسل، عقیدے یا رنگ سے کوئی مسئلہ ہے۔‘ وہ کہتے ہیں ’[لیکن] اگر آپ اچانک اپنے فارم میں ایک بالکل نیا ملک، ثقافت، طرز زندگی، لے آتے ہیں، تو اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔‘
پہلے سیزن میں نئے مزدوروں کی کارکردگی 25 فیصد کم ہوتی ہے۔
چیمبرز کا کہنا ہے کہ ان کے پاس وسطی اور مشرقی یورپ کے تجربہ کار مزدوروں کی ایک بڑی تعداد اب بھی اپنے فارمز پر کام کے لیے واپس آ رہی ہے، وہ کسی ناخوشگوار صورتحال سے بچنے کے لیے پہلے ہی یوکرینی اور روسی مزدوروں کو الگ الگ جگہوں میں رکھ رہے ہیں۔
چیمبرز کو معلوم ہے کہ مزدوروں کو بھرتی کا مقابلہ اتنا شدید ہوتا جا رہا ہے اور انھیں نئی جگہوں سے مزدوروں کو قبول کرنا پڑے گا۔
گذشتہ برس ٹم چیمبرز کو مزدوروں کی کمی کی وجہ سے بیری کی 12 فیصد فصل کو ضائع کرنا پڑا تھا۔
وہ الزام لگاتے ہیں کہ حکومت مزدوروں کو وقت پر ویزے جاری نہیں کر رہی۔ رواں برس 30 ہزار ویزوں کی حد مقرر کی گئی ہے جن میں یوقت ضرورت 10 ہزار کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ ویزوں کی تعداد 2023 سے کم ہونا شروع ہو جائے گی، جس کی تلافی کے لیے برطانوی کارکنوں اور آٹومیشن پر زیادہ توجہ دی جائے گی۔
ٹم چیمبرز کا کہنا ہے کہ ’انھیں جو ذمہ داری دی گئی ہے انھیں احساس ہی نہیں ہے کہ وہ اس سے کتنا ظلم کر سکتے ہیں۔‘
لاینگڈن مینر فارمز کے ایلسٹر بروکس کہتے ہیں کہ دوسری تباہ کن چیز یہ ہے کہ حکومت کہتی ہے کہ باہر سے آنے والے موسمی مزدوروں کو کم از کم 10 پاؤنڈ فی گھنٹہ کے حساب سے اجرت دی جائے جو کہ برطانیہ میں کم از کم اجرت سے زیادہ ہے۔ ’مجھے ان مزدوروں سے مسئلہ نہیں ہے وہ بہت محنت کرتے ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے صارفین کو مقررہ قیمت پر پیداوار پہنچانی ہے۔ میں اپنے موجودہ کارکنوں کو نئے آنے والوں سے کم تنخواہ نہیں دے سکتا، اس لیے اجرت پورے بورڈ میں بڑھ گئی ہے۔‘
محکمہ داخلہ نے کہا ہے کہ حکومت برطانیہ کے کسانوں اور کاشتکاروں کی مدد کرنے کے لیے تیار ہے اور ’اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ان کے پاس مدد اور افرادی قوت موجود ہے جس کی انھیں ضرورت ہے۔‘
سیزنل ورکرز سکیم اب 2024 کے آخر تک کام کر رہی ہے۔ ہوم آفس کے ترجمان نے کہا کہ حکومت برطانیہ کے کارکنوں ورکروں کو اس شعبے میں کی طرف راغب کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔