حقوق انسانی کی تنظیمیں کہتی ہیں کہ ایران میں سزائے موت دینے کا دور چل رہا ہے۔ جولائی کے آخری ہفتے میں 32 افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا جن میں تین خواتین بھی شامل تھیں جنھوں نے اپنے شوہروں کا قتل کیا تھا۔
امریکہ میں حقوق انسانی کی تنظیم عبدالرحمٰن برومند سینٹر کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر رویا برومند کہتی ہیں۔ ’(ایران میں) قتل کے لیے قید کی سزا نہیں ہے۔ یا تو آپ معاف کر دیں یا پھانسی چڑھا دیں۔‘
حقوق انسانی کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اعداد و شمار کے مطابق اگرچہ دوسرے ملکوں میں ایران سے زیادہ پھانسیاں دی جاتی ہے۔ مگر خواتین کو سزائے موت دینے میں ایران سب سے آگے ہے۔
ایران عورتوں کو پھانسی کیوں دیتا ہے؟
عبدالرحمٰن برومند سینٹر کے مطابق گذشتہ ہفتے تین ۔عورتوں کو پھانسی دینے کے علاوہ ایران میں اس برس کے پہلے چھ ماہ میں چھ عورتوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔
یہ سچ ہے کہ ملک میں زیادہ تر پھانسیاں مردوں کو دی جاتی ہیں۔ مگر یہ نو پھانسیاں بڑھتے ہوئے ٹوٹل میں۔ ایک اور اضافہ ہے۔
برومند نے بی سی سی کو بتایا کہ ’ہمارے حساب سے سنہ 2000 سے 2022 تک۔ کم سے کم 233 عورتوں کو پھانسی دی جا چکی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’106 عورتوں کو قتل اور 96 کو منشیات سے متعلق جرائم پر پھانسیاں دی گئیں۔‘
کچھ خواتین کے بارے میں خیال ہے انھیں شادی کے بغیر سیکس کرنے۔ کے جرم میں موت کے گھاٹ اتارا گیا۔
برومند کا کہنا ہے کہ سرکاری طور پر صرف 15 فیصد ایسے کیسوں کا اعلان کیا جاتا ہے۔ جبکہ باقیوں کا پتا یا تو سیاسی قیدیوں سے چلتا ہے یا پھر ان کی تفصیلات بعض حکام منظوری کے بغیر لیک کرتے ہیں۔
برومند کا کہنا ہے کہ بڑی تعداد میں پھانسیوں کا سبب قوانین میں لچک کی کمی ہے۔ ملکی قانون کے مطابق قتل کے جرم میں ریاست سزائے موت کو کم نہیں کر سکتی، یہ اختیار صرف مقتول کے وارثوں کے پاس ہے۔
کوئی مدد نہیں
ایران میں انسانی حقوق کی کارکن آتنا دائمی نے بالکل آخری لمحات میں ایک 40 برس کی افغان عورت صنوبر جلالی کے لیے جنھیں اپنے ۔شوہر کے قتل کے جرم میں پھانسی دی جا رہی تھی، معافی حاصل کرنے کی کوشش کی۔
دائمی کو امید تھی کہ وہ جلالی کے شوہر کے وارثوں کو معافی کے لیے رضامند کر لیں گی۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا، ’ہم نے مقتول کے خاندان والوں کو ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ تاکہ ان سے معافی کی التجا کریں، مگر جیل کے حکام نے ہم سے تعاون نہیں کیا۔ انھوں نے ہمیں سرکاری وکیل کا نمبر دیا، مگر اُنھوں نے ہماری درخواست کو نظر انداز کر دیا۔
’جیل حکام بعض اوقات مقتول کے خاندان والوں کو دیت (خون بہا) کے بدلے معاف کر دینے پر راضی کرنے کی کوشش میں مدد دیتے ہیں۔ مگر ہمیشہ نہیں۔‘
مگر برومند کو کچھ مواقع پر کامیابی ہوئی ہے۔ دو دوسرے کارکنوں کی مدد سے وہ دو افراد کو پھانسی پر چڑھنے اور آٹھ دیگر کے جسم کا کوئی حصہ کٹنے سے بچانے میں کامیاب رہی ہیں۔
جس روز جلالی کو پھانسی دی گئی تھی اسی روز دو دیگر عورتوں کو بھی سزائے موت دی گئی تھی۔ ان میں سے ایک کی عمر صرف 15 سال تھی۔ تیسری عورت کو پانچ سال پہلے اپنے شوہر کو قتل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
کمزور دفاع
اپنی سماجی سرگرمی کی وجہ سے دائمی کو سات سال قید کاٹنی پڑی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین کے لیے قائم جیلیں بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ اور بعض اوقات قیدیوں کے ساتھ مار پیٹ کی جاتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ عدالتی کارروائی بھی اکثر عورتوں کے خلاف جاتی ہے کیونکہ صرف مرد ہی جج ہوتے ہیں اور زیادہ تر وکیل بھی مرد ہی ہوتے ہیں۔
ایرانی عدالتیں وکیل دفاع کا تقرر کرتی ہیں مگر دائمی کہتی ہیں۔ کہ وہ زیادہ قانونی مدد فراہم نہیں کرتے کیونکہ ’یہ ایسے مقرر کردہ اکثر وکیل یا تو سابق جج ہوتے ہیں یا استغاثہ کے وکیل۔‘
دائمی کا کہنا ہے کہ ’قتل کے مقدمات میں خود کو بے گناہ ثابت کرنا آسان نہیں ہوتا۔ ملزم کے بیان کے مقابلے میں مقتول کے گھروں کی بات کو زیادہ وزن دیا جاتا ہے۔‘
صنفی امتیاز پر مبنی نظام
ناروے میں مقیم ایرانی صحافی آسیہ امینی خاص طور سے ان مقدمات پر نظر رکھتی ہیں۔ جن میں کسی عورت کو سزائے موت سنائی گئی ہو۔ ان کا کہنا ہے ۔کہ مسئلے کی بنیادی وجہ قانونی نظام ہے۔
آسیہ امینی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’قانون کے لحاظ سے باپ یا دادا خاندان کا سربراہ ہوتا ہے۔ اور شادی سمیت بیٹی کا مستقبل طے کرنے کا اختیار انھیں حاصل ہوتا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جن لڑکیوں کی شادی زبردستی کر دی جاتی ہے۔ انھیں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے جس میں گھریلو تشدد بھی شامل ہے۔ اور ان کے لیے ایرانی عدالتوں سے طلاق حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔
جن لڑکیوں کو سزا ہو جاتی ہے ان کے گھر والے بھی ان سے تعلق ختم کر لیتے ہیں۔ کیونکہ وہ ’خاندان کی عزت‘ کا پاس رکھنا چاہتے ہیں۔
آسیہ امینی کا کہنا ہے کہ ’اس حال میں بعض عورتوں کو ہمیشہ کے لیے تشدد جھیلنا پڑتا ہے۔‘
اس صورتحال میں کچھ عورتیں اپنے شوہر کو قتل کرنے کے بارے میں سوچنے لگتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے، ’ان میں سے بعض عورتیں اعتراف کر لیتی ہیں کہ قتل انھوں نے ہی کیا ہے۔ یا کسی نے ان کی مدد کی ہے۔ مگر تقریباً تمام ہی ایسی خواتین کہتی ہیں۔ کہ جس تشدد کا انھیں سامنا تھا اگر اس سے بچنے کا کوئی دوسرا راستہ ہوتا تو وہ قتل۔ جیسے جرم کا ارتکاب نہ کرتیں۔‘
بچوں کو پھانسی
آسیہ امینی 16 برس کی ایک لڑکی کا کیس بطور مثال پیش کرتی ہیں کہ عدالت میں ان کے ساتھ کیسا برتاؤ رکھا گیا۔ تھا۔ عاطفہ صالح کو کئی مردوں نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔
بجائے اس کم سن لڑکی کو انصاف دینے کے سنہ 2004 میں ججوں نے انھیں شادی کے بغیر جنسی فعل کا مرتکب قرار دے دیا۔
آسیہ امینی کا کہنا تھا کہ ’انھیں کئی مردوں کے ساتھ جنسی فعل کرنے کے جرم میں سزائے موت سنا دی گئی۔ حالانکہ حقیقت میں ان کا ریپ ہوا تھا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ایران میں ضابطۂ تعزیرات اسلامی کے مطابق اگر کوئی شخص شادی کے بغیر جنسی فعل کرنے کا اعتراف کرے تو اس کی سزا 100 کوڑے ہے۔ اور اگر یہ فعل تین مرتبہ کیا جائے تو چوتھی بار اس کی سزا موت ہو گی۔
آسیہ امینی کہتی ہیں، ’مگر عاطفہ کے معاملے میں اس غیر انسانی قانونی کا اطلاق بھی نہیں کیا گیا، کیونکہ مجھے پتا چلا ہے کہ انھیں صرف دو مرتبہ 100 کوڑے لگائے گئے جس کے بعد جج نے پھانسی کا حکم دے دیا۔‘
جج نے خود پھندا لگایا
’پھر حاجی رضائی نامی اسی جج نے خود عاطفہ کی گردن میں پھندا لگایا۔‘
انتقام کا جذبہ یہاں پر ختم نہیں ہوتا۔ سزائے موت کے خلاف کام کرنے والی کارکن نرگس محمدی نے ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی جس میں ان کے بیان کے مطابق ایک بیٹا پھانسی کے تختے پر اپنی ماں کے پیروں تلے سٹول کو ٹھوکر مارتا ہے کیونکہ اس عورت نے اپنے شوہر کو قتل کر دیا تھا۔‘
محمدی کا خیال ہے کہ مقتول شوہر کے خاندان والوں نے بیٹے اور رشتے داروں پر ’خاندان کی عزت بحال کرنے کے لیے‘ بہت زیادہ دباؤ ڈالا تھا۔
ڈرانے کا ہتھیار
آسیہ امینی اس بات پر افسوس کا اظہار کرتی ہیں کہ قانون، عدالت اور روایت میں موجود امتیاز ’عورت کو بند گلی میں دھکیلنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ جہاں یا تو وہ مجرم بن جاتی ہیں۔ یا جرم کا نشانہ،‘ مگر یہ بات ان کی سمجھ سے باہر ہے کہ پھانسیاں دینے میں جلدی کس بات کی ہے۔
وہ کہتی ہیں، ’میں ان برسوں کے دوران ایک جیل سے دوسری جیل میں ایسے مقدمات کو دیکھتی رہی ہوں، مگر یہ بات مجھے کبھی سمجھ میں نہیں آئی۔ کہ ایسی ظالمانہ سزائیں دینے سے حکومت کو ملتا کیا ہے۔‘
البتہ برومند کے پاس شاید اس کا جواب ہے۔
ایرانی جیلیں اب سیاسی قیدیوں اور منشیات استعمال کرنے والوں سے بھری ہوئی ہیں، اس لیے ان کے خیال میں جیلوں پر دباؤ کم کرنے کی غرض سے حکام مقتولین کے رشتے داروں پر دباؤ ڈالتے ہیں۔ کہ وہ بدلہ لینے یا معافی دینے کے فیصلے میں جلدی کریں۔
برومند کو خدشہ ہے کہ اس کی وجہ سے مزید لوگوں کو پھانسی کے تختے پر جھولنا ہو گا۔
انھیں یہ بھی شبہ ہے کہ سخت سزا دینے کے پیچھے حکام کے مذموم عزائم بھی ہیں۔
وہ کہتی ہیں، ’حال ہی میں تہران میں ایک شخص کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ وہ اعضا کاٹنے کی سزاؤں پر عملدرآمد کے لیے قیدیوں کو دوسرے شہروں سے لا رہے ہیں۔
’وہ کہتے تو نہیں مگر یہ کام اس انداز سے کرتے ہیں۔ کہ سزا کے بارے میں معلومات معاشرے میں خوب پھیلیں تاکہ ایکٹیوِسٹ (کارکنوں) میں خوف پیدا ہو۔‘