جب شمالی انڈین ریاست اتر پردیش میں بورڈ امتحانات کے نتائج کا اعلان کیا گیا تو سب سے زیادہ نمبر لینے والی پراچی نگم کو امید تھی کہ ان کی کامیابی پر جشن منایا جائے گا۔
اس 15 سالہ طالبہ نے 55 لاکھ دیگر طالب علموں کے مقابلے میں 98.5 فیصد نمبر حاصل کیے۔
تاہم ایکس پر ان کی تصویر پوسٹ کیے. جانے کے بعد سامنے آنے والے تبصروں سے ان کی خوشی ماند پڑ گئی۔ سوشل میڈیا پر ان کے چہرے کے بالوں کے بارے میں تکلیف دہ تبصرے کیے گئے۔
پراچی نگم نے انڈین خبر رساں ایجنسی اے این آئی کو بتایا: ’بھگوان نے مجھے جیسا بھی بنایا، میں سے مطمئن ہوں۔ جن لوگوں کو کوئی فرق محسوس ہوتا ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ حتیٰ کہ چانکیہ .(قدیم انڈین پولی میتھ) کو بھی ٹرول کیا گیا تھا اور انہوں نے اس کی پرواہ نہیں کی تھی۔ اسی طرح مجھے بھی پرواہ نہیں ہے اور میں اپنی تعلیم پر توجہ دوں گی۔‘
اظہار یکجہتی
پرسنل کیئر اینڈ گرومنگ پروڈکٹس برانڈ بامبے شیونگ کمپنی نے بھی ایک اشتہار شائع کیا تھا. جس میں پراچی کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن اسے بھی اس صورت حال کا فائدہ اٹھانے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
اشتہار میں لکھا تھا: ’پیاری پراچی، وہ آج آپ کے بالوں کو ٹرول کر رہے ہیں، وہ کل آپ کے A.I.R.کی تعریف کریں گے۔‘ لیکن اشتہار کے نیچے ایک چھوٹا سا متن بھی درج تھا: ’ہم امید کرتے ہیں. کہ آپ کو کبھی بھی ہمارے ریزر استعمال کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔‘
بہت سے لوگوں نے سوشل میڈیا پر اس بدسلوکی کی. مذمت کی اور نوجوان خواتین. اور لڑکیوں کے لیے دوہرے معیار کی طرف اشارہ کیا۔
پراچی نے کہا کہ ان کے قریبی حلقوں میں سے کسی نے کبھی بھی ان کی ظاہری شکل میں کوئی خامی نہیں نکالی اور انہوں نے ’کبھی اس کی پرواہ نہیں‘ کی۔
انہوں نے آئی اے این ایس کو بتایا. کہ ’رزلٹ کے بعد جب میری تصویر شائع ہوئی تو لوگوں نے مجھے ٹرول کرنا شروع کر دیا اور پھر میری توجہ اس مسئلے کی طرف گئی۔‘
تاہم انہوں نے کہا کہ وہ اب ان تبصروں پر مزید توجہ نہیں دیتیں۔
ٹاپ
’ظاہر ہے یہ برا لگتا ہے، لیکن لوگ وہی لکھتے ہیں جو وہ سوچتے ہیں. اور اس کے بارے میں کچھ نہیں کیا جا سکتا۔‘
انہوں نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ ’اگر میں نے کم نمبر لیے. ہوتے تو میں ٹاپ پر نہ آتی اور نہ مشہور ہوتی۔ شاید یہ بہتر ہوتا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’لوگ بالوں والی لڑکیاں دیکھ ٹاپ کر ان کے بارے میں عجیب محسوس کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے اس سے پہلے ایسا نہیں دیکھا ہوتا۔‘
ایسا لگتا ہے کہ پراچی نگم کے والدین نے بھی اپنی بیٹی جیسا رویہ اختیار کیا ہے۔
پراچی کے والد چندر پرکاش نگم نے کہا: ’معاشرے میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ہمیں فطری طور پر برا لگا، لیکن اس کے ساتھ ہی ہمیں اپنی بیٹی پر فخر بھی ہے کہ اس نے سب سے زیادہ نمبر حاصل کیے۔‘
پراچی کہتی ہیں کہ ان کا منصوبہ مزید تعلیم حاصل کرنے اور مستقبل میں انجینیئر بننے کا ہے۔
ان کا کہنا تھا: ’آخر کار جو چیز اہمیت رکھتی ہے وہ میرے نمبر ہیں نہ کہ میرے چہرے کے بال۔‘