اس سال 2025کا نوبل امن انعام وینزویلا کی اپوزیشن رہنما ماچاڈو کے نام

نوبل امن انعام کی فاتح ماریا کورینا ماچاڈو کا جذباتی ردِ عمل: جمہوریت کی جدوجہد کو خراج تحسین

ونزویلا کی ممتاز اپوزیشن رہنما ماریا کورینا ماچاڈو، جنہیں. 2025 کا نوبل امن انعام ملنے کی خبر سن کر انہوں نے اپنے ردِ عمل کا اظہار کیا ہے، نے اس اعزاز کو نہ صرف اپنی ذاتی کامیابی. بلکہ پورے ونزیویلن عوام کی طویل جدوجہد اور جمہوریت کی بحالی کی علامت قرار دیا ہے۔

نروئیجین نوبل کمیٹی کی طرف سے جمعہ، 10 اکتوبر 2025 .کو اسلُو میں اعلان کیا گیا کہ ماچاڈو کو "ونزویلا میں آمریت سے جمہوریت کی. منصفانہ اور پرامن منتقلی کی جدوجہد” اور "جمہوری حقوق کی بے تھک حامی” کے طور پر یہ عالمی اعزاز دیا جائے گا۔ کمیٹی نے ان کی ہمت کو سراہتے ہوئے کہا کہ وہ "بڑھتی ہوئی تاریکی میں جمہوریت کی شمع کو روشن رکھنے والی” شخصیت ہیں، جو اپنے ملک میں رہنے. اور جدوجہد جاری رکھنے کا انتخاب کر کے لاکھوں لوگوں کو متاثر کرتی ہیں۔

طویل جدوجہد


ماچاڈو، جو 58 سالہ سیاستدان ہیں. اور ونزویلا کی اپوزیشن کی اتحاد کی علامت سمجھی جاتی ہیں،یہ اعزاز ماچاڈو کی دو دہائیوں. پر محیط ونزویلا. کی ممتاز اپوزیشن رہنما ماریا کورینا ماچاڈو، جنہیں 2025 کا نوبل امن انعام ملنے کی خبر سن کر انہوں نے اپنے ردِ عمل کا اظہار کیا ہے، نے اس اعزاز کو نہ صرف اپنی ذاتی کامیابی بلکہ پورے ونزیویلن عوام کی طویل جدوجہد. اور جمہوریت کی بحالی کی علامت قرار دیا ہے۔

نروئیجین نوبل کمیٹی کی طرف سے جمعہ، 10 اکتوبر 2025 کو اسلُو میں اعلان کیا گیا کہ ماچاڈو کو "ونزویلا میں آمریت سے جمہوریت کی منصفانہ اور پرامن منتقلی کی جدوجہد” اور "جمہوری حقوق کی بے تھک حامی” کے طور پر یہ عالمی اعزاز دیا جائے گا۔ کمیٹی نے ان کی ہمت کو سراہتے ہوئے. کہا کہ وہ "بڑھتی ہوئی تاریکی میں جمہوریت کی شمع کو روشن رکھنے والی” شخصیت ہیں، جو اپنے ملک میں رہنے. اور جدوجہد جاری رکھنے کا انتخاب کر کے لاکھوں لوگوں کو متاثر کرتی ہیں۔

اتحاد کی علامت


ماچاڈو، جو 58 سالہ سیاستدان ہیں اور ونزویلا کی اپوزیشن کی اتحاد کی علامت سمجھی جاتی ہیں،یہ اعزاز ماچاڈو کی دو دہائیوں پر محیط سیاسی زندگی کا عکاس ہے، جہاں انہوں نے نکلاس مدورو کی آمرانہ حکومت کے خلاف پرامن احتجاج، انسانی حقوق کی حفاظت، اور انتخابات کی شفافیت کی تحریک چلائی وہان دنوں حکومتی جبر کے خلاف آواز اٹھا رہی ہيں اور اور ونزویلا ہی ميں روپوش ہيں۔

نوبل انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر کرسٹیان برگ ہارپوئیکن نے براہِ راست فون کال کے ذریعے انہیں مطلع کیا۔ ایک ویڈیو میں ان کا جذباتی ردِ عمل ریکارڈ کیا گیا، جہاں وہ حیرت اور خوشی سے بول اٹھیں: "مجھے کوئی الفاظ نہیں مل رہے… میں آپ کا بہت شکریہ ادا کرتی ہوں، لیکن امید ہے آپ سمجھیں گے. کہ یہ ایک تحریک ہے، یہ پوری معاشرے کی کامیابی ہے۔ میں تو صرف ایک شخص ہوں۔ مجھے یقیناً یہ انعام نہیں ملنا چاہیے۔” انہوں نے فوری طور پر اس اعزاز کو واپس کرنے کی خواہش کا اظہار کیا، مگر اسے ونزیویلن عوام کی آزادی کی. جدوجہد کا حصہ قرار دیا۔

جدوجہد


ایک سرکاری بیان میں ماچاڈو نے مزید تفصیل سے کہا: "یہ ونزیویلنز کی جدوجہد کی عظیم ترین توثیق ہے، جو ہمیں اپنا کام مکمل کرنے کی ترغیب دیتی ہے: آزادی کو حاصل کرنا۔” انہوں نے اسے اپنے ساتھیوں، خاص طور پر گزشتہ سال کے صدارتی انتخابات میں ان کے معاون ایڈورڈو گونزالیز کی بھی کامیابی قرار دیا، جنہوں نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا کہ "ونزویلا کا پہلا نوبل! ونزویلا آزاد ہوگا!” ماچاڈو نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی اس اعزاز کا حصہ بنایا، جن کی پالیسیوں کو ونزویلا کی آمریت کے خلاف مددگار قرار دیا، حالانکہ ٹرمپ خود اس انعام کے لیے مضبوط امیدوار سمجھے جاتے تھے۔


2011 سے 2014 تک ونزیویلن قومی اسمبلی کی رکن رہنے کے بعد، انہوں نے اپوزیشن کو متحد کیا. اور گزشتہ سال کے متنازع انتخابات میں اپنے. امیدوار کی حمایت کی، جس کے بعد انہیں غداری کا الزام لگا. اور گرفتاری کی دھمکیاں ملیں۔ اس کے باوجود، وہ ملک چھوڑنے سے انکار کر کے لاکھوں شہریوں کی آواز بنی رہیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق دفتر نے بھی ان کی کامیابی پر مبارکباد دی، جبکہ مدورو حکومت .نے اسے "سیاسی سازش” قرار دیا۔

عالمی سطح پر جمہوریت


ماچاڈو کی یہ کامیابی عالمی سطح پر جمہوریت کی کمزوری اور آمریت کی بڑھتی ہوئی لہر کے تناظر میں ایک اہم پیغام ہے۔ نوبل کمیٹی کے چیئرمین جارجن واٹنے فرائیڈنز نے کہا کہ. "جب آمر طاقتیں اقتدار پر قبضہ کر لیں، تو آزادی کے بہادر مدافعین کو تسلیم کرنا ضروری ہے. جو مزاحمت کرتے ہیں۔” اب یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ کیا یہ انعام ونزویلا میں عوامی مظاہروں کو مزید تقویت دے گا اور مدورو حکومت پر دباؤ بڑھائے گا۔ ماچاڈو کی جانib سے اب تک یہ واضح نہیں کہ وہ دسمبر میں اسلُو. میں انعام کی تقریب میں شرکت کر سکیں گی. یا نہیں، کیونکہ ان کی حفاظت کو سنگین. خطرات کا سامنا ہے، مگر ان کی جدوجہد جاری رہنے کی یقین دہانی کرا دی گئی ہے۔

کا عکاس ہے، جہاں انہوں نے نکلاس مدورو کی آمرانہ حکومت کے خلاف پرامن احتجاج، انسانی حقوق کی حفاظت، اور انتخابات کی شفافیت کی تحریک چلائی وہان دنوں. حکومتی جبر کے خلاف آواز اٹھا رہی ہيں. اور اور ونزویلا ہی ميں روپوش ہيں۔

جذباتی ردِ عمل

نوبل انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر کرسٹیان برگ ہارپوئیکن نے براہِ راست فون کال کے ذریعے انہیں مطلع کیا۔ ایک ویڈیو میں ان کا جذباتی ردِ عمل ریکارڈ کیا گیا، جہاں وہ حیرت. اور خوشی سے بول اٹھیں: "مجھے کوئی الفاظ نہیں مل رہے… میں آپ کا بہت شکریہ ادا کرتی ہوں، لیکن امید ہے آپ سمجھیں گے کہ یہ ایک تحریک ہے، یہ پوری معاشرے کی کامیابی ہے۔ میں تو صرف ایک شخص ہوں۔ مجھے یقیناً یہ انعام نہیں ملنا چاہیے۔” انہوں نے فوری طور پر اس اعزاز کو واپس کرنے کی خواہش کا اظہار کیا، مگر اسے ونزیویلن عوام کی آزادی کی جدوجہد کا حصہ قرار دیا۔


ایک سرکاری بیان میں ماچاڈو نے مزید تفصیل سے کہا: "یہ ونزیویلنز کی. جدوجہد کی عظیم ترین توثیق ہے، جو ہمیں اپنا کام مکمل کرنے کی ترغیب دیتی ہے: آزادی کو حاصل کرنا۔” انہوں نے اسے اپنے ساتھیوں، خاص طور پر گزشتہ سال کے صدارتی انتخابات میں ان کے معاون ایڈورڈو گونزالیز کی بھی کامیابی قرار دیا، جنہوں نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا کہ "ونزویلا کا پہلا نوبل! ونزویلا آزاد ہوگا!” ماچاڈو نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ. کو بھی اس اعزاز کا حصہ بنایا، جن کی پالیسیوں کو ونزویلا. کی آمریت کے خلاف مددگار قرار دیا، حالانکہ ٹرمپ خود اس انعام کے لیے مضبوط امیدوار سمجھے جاتے تھے۔

گرفتاری کی دھمکیاں


2011 سے 2014 تک ونزیویلن قومی اسمبلی کی رکن رہنے کے بعد، انہوں نے اپوزیشن کو متحد کیا. اور گزشتہ سال کے متنازع انتخابات میں اپنے امیدوار کی حمایت کی، جس کے بعد انہیں غداری کا الزام لگا. اور گرفتاری کی دھمکیاں ملیں۔ اس کے باوجود، وہ ملک چھوڑنے سے انکار کر کے لاکھوں شہریوں کی آواز بنی رہیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق دفتر نے بھی ان کی کامیابی پر مبارکباد دی، جبکہ مدورو حکومت نے اسے "سیاسی سازش” قرار دیا۔


ماچاڈو کی یہ کامیابی عالمی سطح پر. جمہوریت کی کمزوری اور آمریت کی بڑھتی ہوئی لہر کے تناظر. میں ایک اہم پیغام ہے۔ نوبل کمیٹی کے چیئرمین جارجن واٹنے فرائیڈنز نے کہا کہ "جب آمر طاقتیں اقتدار پر قبضہ کر لیں، تو آزادی کے بہادر مدافعین کو تسلیم کرنا ضروری ہے. جو مزاحمت کرتے ہیں۔” اب یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا. کہ کیا یہ انعام ونزویلا میں عوامی مظاہروں کو مزید تقویت دے گا اور مدورو. حکومت پر دباؤ بڑھائے گا۔ ماچاڈو کی جانib سے اب تک یہ واضح نہیں کہ وہ دسمبر میں اسلُو میں انعام کی. تقریب میں شرکت کر سکیں گی یا نہیں، کیونکہ ان کی حفاظت کو سنگین خطرات کا سامنا ہے، مگر ان کی جدوجہد جاری رہنے کی یقین دہانی کرا دی گئی ہے۔

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.