آج کل کی مہنگائی میں گاڑی لینا ایک انتہائی کٹھن فیصلہ بن چکا ہے، جس سے پہلے سو مرتبہ سوچنا پڑتا ہے۔
بینک سے لون لے کر گاڑی نکلوائی تو کہیں قرضے کے جال میں نہ پھنس جائیں؟ ڈاؤن پیمنٹ کہاں سے آئے گی؟ اتنے مہینے انتظار کیوں کریں۔
سیکنڈ ہینڈ لے لی تو اگر دھوکا ہو گیا تو؟ ایک ساتھ اتنی ساری رقم کہاں سے جمع کی جائے، اور آخر کار یہ معلوم ہوتا ہے کہ گاڑیوں کی قیمتوں میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہو چکا ہے۔
اتنا نہ سوچیے آئیے کراچی کے عادل حبیب سے ملیے جو ہر چوتھے مہینے اپنی گاڑی تبدیل کرتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہ اس کے لیے کسی کار ڈیلر یا کسی ایپ پر جانے کی بجائے ’گاڑیوں کے اتوار بازار‘ کا رخ کرتے ہیں۔
عادل کے مطابق انھیں یہاں نہ صرف اپنی پسند کی گاڑی با آسانی، اور سستے داموں مل جاتی ہے بلکہ ان کی اپنی گاڑی بھی فروخت ہو جاتی ہے۔
بازار شہر کے متوسط طبقے ميں
نارتھ کراچی کے علاقے یو پی موڑ کے قریب کھیل کے میدان میں ہر اتوار کو گاڑیوں کا یہ بازار لگتا ہے، جس میں ہر ہفتے درجنوں گاڑیوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔
یہ بازار گذشتہ 15 سال سے منعقد کیا جا رہا ہے، جس میں نہ صرف کراچی بلکہ پاکستان کے دیگر علاقوں سے بھی لوگ آتے ہیں۔
گاڑیوں کے اس اتوار بازار میں دوپہر دو بجے سے گاڑیوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور مغرب تک سودے ہوتے ہیں، ان میں مختلف ادوار اور مختلف اقسام کی کاریں، سوزوکی پک اپس اور جیپیں لائی جاتی ہیں۔
لوگ گاڑیوں کے اتوار بازار کا رخ کیوں کرتے ہیں؟
کراچی میں خالد بن ولید روڈ، طارق روڈ، شاہراہِ قائدین، نیو ایم اے جناح روڈ سمیت کئی علاقوں میں استعمال شدہ گاڑیوں کے ڈیلر موجود ہیں۔
اسی طرح انٹرنیٹ پر پاک وہیلز اور او ایل ایکس جیسی کمپنیاں بھی موجود ہیں جو گاڑیوں کی آن لائن خرید و فروخت میں معاونت فراہم کرتی ہیں۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ لوگ اس اتوار بازار کا رخ کیوں کرتے ہیں۔
نوجوان عادل حبیب آن لائن پلیٹ فارمز کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’آن لائن گاڑی کی صورتحال دکھاتے ایک ہیں جبکہ ہوتی دوسری ہے۔‘
’یہ گاڑیاں شہر کے مختلف علاقوں میں موجود ہوتی ہیں، اب وہاں کا چکر کون لگائے اور گاڑی کا تیل جلائے اس لیے اس بازار کا ہی رخ کرتے ہیں۔‘
کراچی کے رہائشی فرحت بخاری نے گذشتہ ہفتے یہاں گاڑی فروخت کی تھی اور اس ہفتے وہ دوبارہ یہاں آئے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہاں مختلف گاڑیاں ہوتی ہیں تو آپ کو اپنی رینج کی گاڑی مل جاتی ہے، اس کے برعکس پاک وہیلز اور او ایل ایکس پر آپشن محدود ہوتے ہیں جبکہ ڈیلر کے پاس جاتے ہیں تو کمیشن کا معاملہ بھی آ جاتا ہے۔ یہاں تو آپ فوری سودا کر لیتے ہیں اگر ایک گاڑی پسند نہیں آئی تو دوسری دیکھ لی۔‘
اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ گاڑیوں کے شور روم کے مالکان بھی یہاں آ کر خرید و فروخت کرتے ہیں۔
ایک اور ایسے ہی صارف جبار احمد خان بتاتے ہیں کہ ’اگر آپ او ایل ایکس یا پاک وہیلز پر گاڑی لگائیں تو جعلی کالز بھی بہت آتی ہیں لوگ فون پر بہت تنگ کرتے ہیں لیکن یہاں گھنٹوں میں سودا ہو جاتا ہے۔‘
گاڑی اور کاغذات کیسے چیک ہوتے ہیں؟
بازار میں آپ کو کئی لوگ، گاڑیوں کے نیچے لیٹ کر اندرونی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے نظر آئیں گے۔ یہاں کوئی بونٹ کھول کر گاڑی کے انجن کی کنڈیشن چیک کر رہا ہو گا تو کوئی اس کی باڈی کو انگلیوں سے بجا کر یہ اندازہ لگانے کی کوشش کر رہا ہو گا کہ کہیں کوئی ڈینٹ تو نہیں پڑا ہوا، کیا اس کا رنگ اصلی حالت میں ہے یا نہیں۔
فرحت بخاری بتاتے ہیں کہ ’لوگوں کو گاڑی چلانے کا تو تجربہ ہوتا ہے لیکن اس کی جانچ پڑتال کا علم نہیں ہوتا، اس لیے وہ اپنے ساتھ ڈینٹر اور مستری لاتے ہیں جو متعلقہ گاڑی کو چیک کرتے ہیں، اس کے علاوہ بازار میں بھی یہ دونوں موجود ہوتے ہیں۔‘
نوجوان عادل حبیب بتاتے ہیں کہ ’اگر کوئی گاڑی پسند آ جائے تو دو ہزار روپے بیانہ دے کر ’رننگ پیپر‘ کی کاپی لیتے ہیں، اس کو سٹیزن پولیس لیاژان کمیٹی اور محکمہ ایکسائیز کی ویب سائٹ سے چیک کرتے ہیں کہ گاڑی چوری کی تو نہیں، جب تصدیق ہو جاتی ہے اور دل مطمئن ہو جاتا ہے تو پھر باقی ادائیگی کر دیتے ہیں۔‘
انتظامیہ کیا مدد کرتی ہے؟
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کا مربوط نظام نہ ہونے کی وجہ سے مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس آمدورفت کے لیے اپنی گاڑی کو ہی ترجیح دیتی ہے۔
ایک طرف حالیہ برسوں میں نئی گاڑیوں کی خریداری میں اضافہ ہوا ہے تو دوسری جانب استعمال شدہ گاڑیوں کا کاروبار بھی بڑھ رہا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 2022 میں پاکستان کی کار مارکیٹ میں تیزی رہی ہے اور صرف مارچ کے مہینے میں 27,696 یونٹس فروخت ہوئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
کون سی گاڑیاں کم پیٹرول ’پیتی‘ ہیں اور کیا مہنگی ہائبرڈ کار بچت کے لیے بہتر متبادل؟
وہ طریقے جن سے گاڑی میں پیٹرول کی کھپت کم کی جا سکتی ہے
کشمیری انجینیئر جنھوں نے پیٹرول مہنگا ہونے کی پیشن گوئی پڑھ کر الیکٹرو سولر کار بنا ڈالی
کیا الیکٹرک موٹر بائیک ہی ایشیا کا نیا مستقبل ہے؟
اس بازار میں فی گاڑی سے تین سو روپے داخلہ ٹکٹ لیا جاتا ہے، میدان میں چاروں طرف سے گاڑیاں داخل ہو سکتی ہیں جبکہ چالیس، پچاس افراد ان کی مدد کرتے ہیں۔
محمد عرفان اتوار بازار کے منتظمین میں شامل ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’کبھی پندرہ سو تو کبھی اٹھارہ سو گاڑیاں یہاں آتی ہیں جبکہ میدان میں نو ہزار گاڑیاں پارک کرنے کی گنجائش موجود ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم گاڑیاں قطار میں لگواتے ہیں تاکہ ٹریفک جام نہ ہو، اس کے علاوہ اگر کسی کی گاڑی خراب ہو جاتی ہے تو اس کی بھی مدد کی جاتی ہے اور یہاں ماہرین بھی موجود ہوتے ہیں۔‘
’اگر کوئی خریدار گاڑی کی فائل لے کر آئے۔ تو وہ اس کی مدد کرتے ہیں کہ کون سے کاغذات مکمل ہیں، اصل ہیں یا نہیں، یہ گاڑی خریدی جا سکتی ہے یا نہیں۔ اس کے علاوہ کمپیوٹر سے بھی متعلقہ ویب سائٹ سے چیک کرنے کی سہولت موجود ہوتی ہے۔‘
کراچی میں گاڑیاں چھینی بھی جاتی ہیں۔ اور چوری بھی ہوتی ہیں۔ محمد عرفان کے مطابق ’کراچی پولیس کے اینٹی کار لفٹنگ سیل کی ٹیم بھی یہاں آتی ہے اور اگر کسی پر شک ہوتا ہے تو اس کو تفتیش کے لیے لے جاتے ہیں۔ انھیں چیسز نمبر اور نمبر پلیٹ سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ جعلی ہے یا اصلی، ایسے لوگ یہاں پکڑے بھی گئے ہیں۔‘