سائنسدانوں نے ایک بہت بڑا کنول کا پودا دریافت کيا ہے جو گزشتہ 177 برس سے سب کی آنکھوں کے سامنے تھا لیکن کوئی پہچان نہ سکا کہ یہ کیا ہے۔
یہ بہت بڑا پودا ایک عرصے سے لندن کے مضافات میں کیو کے مقام پر واقع مشہور نباتاتی باغ ’رائل بوٹینیکل گارڈنز‘ کے مختلف تالابوں میں پھل پھول رہا تھا اور اس کی جڑیں باغ میں اتنی دور دور تک پھیلی ہوئی تھیں کہ عملے کے افراد اسے پودوں کی کوئی نئی قسم سمجھتے رہے لیکن اب ایک طویل سائنسی جائزے کے بعد اس کی شناخت ہو گئی ہے۔
اس دریافت کے بعد ایک نیا ریکارڈ قائم ہوگیا ہے اور یہ دنیا میں کنول کا سب سے بڑا پودا بن گیا ہے، جس کے پتے تین میٹر سے بھی زیادہ چوڑے ہیں۔
کیو گارڈن میں اگنے وال اس پودے کو ’وکٹوریہ بولِویانا‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یا رہے کہ دریائے ایمازون کے کنارے وہ واحد مقام جہاں اس قسم کا کنول اگتا ہے، اس کا نام بولِویا ہے۔
دنیا میں واٹر للی یا کنول پر تحقیق کے لیے مشہور ماہرِ باغبانی کارلوس میگاڈیلنا کا کہنا تھا کہ انھیں بہت عرصے سے شک تھا کہ برطانیہ میں دریافت ہونے والا یہ بہت بڑا کنول ماضی میں دریافت ہونے والی دو اقسام (وکٹوریہ ایمازونیا اور وکٹوریہ کروزیانا) سے مختلف تھا لیکن اس کی تصدیق نہیں ہو پا رہی تھی۔
چنانچہ بولویا کے کچھ سائنسدانوں نے اپنے ملک کے دو باغات سے بیج جمع کر کے رائل بوٹینیکل گارڈنز کو تحفے میں دیے۔
کارلوس کہتے ہیں کہ ’ اس تحفے کا مطلب یہ تھا کہ اب ہم ان دونوں اقسام کے بیجوں کو اپنے باغ میں لگے ہوئے کنول کے دو پرانے پودوں کے ساتھ اگا سکتے ہیں۔ جب یہ نیا پودا پھلنا پھولنا شروع ہوا تو ہم نے دیکھا کہ اس کا ہر حصہ کنول کی پرانی دو اقسام سے بالکل مخلف تھا۔
کارلوس اس دریافت کو اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا یادگار واقعہ قرار دیتے ہیں۔
پھول بوٹیوں کی تصویر کشی کی ماہر لوسی سمتھ بھی کارلوس کے ساتھ کام کرتی ہیں اور انھوں نے کنول کی تینوں اقسام کی سائنسی ڈرائنگز بنائی ہیں۔
یہ کام کرنے کے لیے لوسی سمتھ کو رات کے وقت کیو گارڈن کے شیشے کے گھر میں جانا پڑتا تھا کیونکہ کنول کے پھول صرف رات کے وقت کھلتے ہیں۔
لوسی کہتی ہیں کہ یوں رات کو ’مجھے ان پھولوں کو دیکھنے کا موقع مل جاتا اور ان کے ساتھ اس کنول کے بڑے بڑے پتوں کا جائزہ لینے کا بھی۔ یوں میں پودے کے مخلف حصوں کی تفیصلی ڈرائنگ بنانے کے قابل ہو گئی۔‘
’اور حقیقت یہ ہے کہ ان تینوں اقسام کے درمیان جو فرق پائے جاتے ہیں، میں جب ان کی تصویر کشی کر رہی تھی تو میرے دماغ یہ بات مزید واضح ہو گئی کہ یہ واقعی تین مختلف اقسام ہیں۔‘
’ہو سکتا ہے کہ میں اس نئی قسم کی بہت زیادہ تعریف کر رہی ہوں لیکن یہ سچ ہے کہ کنول کی اس نئی قسم کے پھول سب سے زیادہ خوبصورت ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیے
سائنسدان جسے 200 کلومیٹر پر پھیلا باغیچہ سمجھتے رہے، وہ ایک ہی پودا نکلا!
گلابوں میں پوشیدہ کچھ راز افشا
ہزاروں میل سفر کرنے والے پھول، پیار کا اظہار بھی اور کاروبار بھی
کیو گارڈن کی اپنی طویل تاریخ پودوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہے اور واٹر للی ہاؤس سنہ 1852 میں خصوصی طور پر اسی لیے بنایا گیا تھا کہ یہاں لِلی اور کنول کی نمائش ہوا کرے گی۔ یہاں لِلی کے بے شمار نمونے لا کر اگائے گئے۔
کنول کا پہلا بڑا پودا سنہ 1800 کے عشرے میں دریافت ہوا تھا اور اسے اس وقت ایک عجوبہ قرار دیا گیا تھا۔ اس کا نام اس وقت کی ملکہ برطانیہ، ملکہ وکٹوریہ کے نام پر رکھا گیا تھا۔
لیکن نئی دریافت سے بھی یہی پتہ چلتا ہے کہ کنول واقعی ایک عجیب و غریب پودا ہے اور سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس کے بارے میں ابھی ہم نے بہت کچھ سیکھنا ہے۔
کیو گارڈن سے منسلک ڈاکٹر ایلکس مونرو کہتے ہیں کہ ان تینوں اقسام پر ابھی تک کوئی تفصیلی تحقیق نہیں ہوئی۔
’ہم ابھی تک یہ بھی نہیں جانتے کہ دنیا میں ان تینوں اقسام کے پودوں کی کل تعداد کیا ہے اور یہ کتنے بڑے ہوتے ہیں، ان کے پتوں کا سائز کتنا ہوتا ہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ ایک پودے سے ان کی نسل کیسے آگے چلتی ہے، ان میں پولینیشن کیسے ہوتی ہے۔ یہ پودا ایک جگہ سے دوسری جگہ کیسے پہنچتا ہے۔‘