پنجاب پولیس اپنے ہی افسر کی موت کی پھر تفتیش شروع کر دی

پنجاب پولیس کے سینیئر افسر ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) شارق جمال رواں برس 22 جولائی کو لاہور کے علاقے ڈیفنس ہاوسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) میں واقع ایک نجی فلیٹ میں مردہ حالت میں پائے گئے تھے اور ان کی موت کا معمہ ابھی تک حل نہیں ہوسکا۔

پولیس نے شارق جمال کی لاش پوسٹ مارٹم کے بعد ورثا کے حوالے کرتے ہوئے بیان جاری کیا تھا. کہ ان کی موت طبعی ہے، لہذا کیس بند کیا جارہا ہے۔

لاہور پولیس نے ان کے ساتھ موجود دوستوں قرة العین، عمران بٹ و دیگر سے بھی تفتیش کی تھی. اور انہیں کچھ دن چھان بین کر کے کلیئر کردیا گیا تھا۔

لیکن پولیس تھانہ نشتر کالونی نے واقعے کے تین ماہ بعد 28 اکتوبر کو مرحوم پولیس افسر کی اکلوتی بیٹی ہانیہ شارق خان کی مدعیت میں ایک مقدمہ درج کیا، جس میں دفعہ 302 یعنی قتل کا مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کرنے کی درخواست کی گئی۔

ایف آئی آر

مدعیہ نے ایف آئی آر میں سمیع اللہ نیازی، قرة العین، منصور الٰہی، شعیب، عمران جاوید بٹ، عدیل، صغیر ودیگر کو ملزم ٹھہرایا ہے۔

ایف آئی آر میں الزام لگایا گیا ہے کہ ملزمان نے شارق جمال کی دولت ہتھیانے کے لیے انہیں قتل کیا، جس کے لیے جان لیوا ادویات کھلائی گئیں تاکہ موت طبعی لگے۔  

ملزمان پر ایف آئی آر میں آٹھ کروڑ مالیت کے امریکی ڈالر، پانچ لاکھ روپے نقدی، گھڑی، سونے کی انگوٹھی اور زمین کے کاغذات بھی تجوری توڑ کر چرانے کا الزام عائد کیا گیا۔

تفتیش

مقدمے کی تفتیش کرنے والے پولیس افسر قاسم گجر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا. کہ ’پولیس کو جب ورثا کی جانب سے مقدمہ درج کرنے کی درخواست موصول ہوئی. تو ہم نے مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی ہے۔ ملزمان اور مدعیہ کے بیانات ریکارڈ کیے جارہے ہیں اور جو الزمات عائد کیے گئے ہیں. ان کی چھان بین بھی جاری ہے۔‘

ان کے مطابق: ’ڈی آئی جی شارق جمال کی میڈیکل رپورٹ میں جن ممنوعہ ادویات کے استعمال کا تذکرہ کیا گیا تھا۔ ان کا دوبارہ تفصیلی معائنہ کروایا جارہا ہے. کہ کیا واقعی ان کے اثرات سے موت واقع ہوئی؟ اس کے علاوہ جو رقم چرانے کا الزام ہے اس کی بھی تفتیش کر رہے ہیں۔ ملزمان نے عدالت سے عبوری ضمانت لے رکھی ہے اور کیس عدالت میں زیر سماعت ہے۔‘

مدعیہ ہانیہ شارق کی والدہ حفصہ شارق نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے. کہا کہ انہیں شارق جمال کی طبعی موت پر پہلے ہی تحفظات تھے۔ ’ہم سے کسی نے نہیں پوچھا۔ پولیس نے اپنی طرف سے 174 کی کارروائی کر دی۔ پوسٹ مارٹم بھی ہمارے کہنے پر ہوا تھا. جبکہ کہا گیا کہ یہ پولیس نے کروایا ہے۔ پھر جب فرانزک رپورٹ آئی تو اس میں بھی وقت لگ گیا۔ ہمیں سی سی ٹی وی فوٹیج بھی نہیں دی گئی، صرف چند کلپس ہی دکھائے گئے ہیں۔‘

ثبوت

حفصہ کے بقول: ’ہم نے کافی کوشش کے بعد قتل کی ایف آئی آر درج کروائی۔ ایک خاتون قرة العین موقعے پر. موجود تھیں۔ ابھی تک انہوں نے عبوری ضمانت کروا رکھی ہے۔ قتل کی تفتیش ہے اس میں کافی ثبوت چاہیے ہوتے ہیں لہذا ابھی تک بہت سست روی سے. کیس آگے بڑھ رہا ہے۔‘

حفصہ نے کہا: ’ہم نے پہلے ہی پولیس کو کہا تھا کہ ملزمان پر انہیں شک ہے، وہ انہیں گرفتار کریں۔ ہم جب پہنچے تو شارق کو کفن میں لپٹا ہوا پایا۔ اس وقت ہم صرف کہہ ہی سکتے تھے۔ پولیس افسر نے اس وقت مجھے کہا کہ جب تک فرانزک رپورٹ نہیں آتی ہمیں ایف آئی آر درج نہیں کروانی چاہیے. تاکہ شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

’ہم نے پھر سی سی پی او لاہور سے درخواست کی، انہوں نے ہمارے الزامات پر جائے وقوعہ دیکھی، پھر انہوں نے 302 کا مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘

حفصہ نے کہا کہ ’شارق رہتے اسی فلیٹ میں تھے جہاں موت واقع ہوئی لیکن وہ ہمارے پاس گھر آتے جاتے تھے۔ یہ تاثر غلط ہے کہ مجھے مرنے سے پہلے انہوں نے طلاق دے دی تھی، اگر ایسا ہوتا تو لاش میرے گھر نہ لائی جاتی۔‘

اس معاملے کے حوالے سے ملزمان کے عرفان صادق ایڈووکیٹ نے. انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جن ملزمان پر قتل کا الزام لگایا گیا ہے انہوں نے خود کو قانون کے سامنے پہلے دن سے سرنڈر کیا ہوا ہے۔ پہلے بھی پولیس تفتیش میں انہوں نے تعاون کیا اور اب بھی تفتیش کے لیے جب بلایا جاتا ہے تو وہ پیش ہو رہے ہیں۔‘

پوسٹ مارٹم

انہوں نے سوال اٹھایا کہ ’جب شارق جمال فوت ہوئے تو انہیں ہسپتال پہنچایا گیا، پولیس افسران نے ان کا پوسٹ. مارٹم کروایا، اس رپورٹ میں موت طبعی درج ہے۔ یہی وجہ تھی کہ پولیس نے کسی کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی بجائے ابتدائی تفتیش کے بعد کیس بند کر دیا، تو اب تین ماہ بعد کیوں مقدمہ درج کیا گیا؟‘

انہوں نے کہا کہ ’ایف آئی آر میں دولت کے لیے قتل کرنے کا جو الزام عائد کیا گیا ہے، اس حوالے سے پولیس کو کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا گیا۔ ملزمان کو عدالت نے گرفتاری سے روکتے ہوئے چھ جنوری تک عبوری ضمانت دی ہے۔ ہمیں یقین ہے. کہ عدالت اس کیس میں جھوٹے الزامات مسترد کر کے انصاف فراہم کرے گی۔‘

عرفان صادق نے کہا کہ ’پولیس اپنے ہی ڈی آئی جی کی موت کا معمہ چھ ماہ بعد بھی حل نہیں کرسکی۔ اس معاملے میں صرف الزامات کی بنیاد پر ملزمان کے خلاف کارروائی کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘

 انڈپینڈنٹ اردو کی جانب سے اس معاملے پر موقف جاننے کے لیے. ڈی آئی جی انویسٹی گیشن لاہور عمران کشور اور ایس ایس پی انویسٹی گیشن انوش چوہدری سے رابطہ کیا گیا. اور یہ جاننے کی کوشش کی گئی. کہ ڈی آئی جی پولیس شارق جمال کی موت کا مقدمہ تین ماہ بعد درج کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ تاہم ان کی جانب سے. کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.