انڈیا کی ریاست اتر پردیش کے رام پور شہر میں دریا میں نہاتے ہوئے دو نوجوانوں کو ڈوبتے ہوئے دیکھ کر ایک لڑکے فرقان نے جو انھیں جانتا بھی نہیں تھا ان کو بچانے کے لیے ندی میں چھلانگ لگا دی۔
بادل نامی نوجوان کو تو فرقان نے ندی سے باہر نکال لیا لیکن بعد میں اس کے ساتھی سُمت کو بچانے کے لیے دوبارہ دریا میں چھلانگ لگائی تو وہ خود بھی باہر نہ آ سکا اور دونوں ڈوب گئے۔
سمت اور فرقان کی لاشیں جمعہ کی شام تقریباً 5.30 بجے کوسی ندی سے نکالی گئیں۔ بادل کو ہسپتال میں داخل کرایا گیا ہے اور اب وہ خطرے سے باہر ہے۔
حادثہ کیسے ہوا؟
ٹانڈہ تھانے کے انچارج اجے پال سنگھ نے بی بی سی کو اس واقعہ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ‘ٹانڈہ کے پوروتر پور گاؤں کا رہنے والا 13 سالہ سُمت گاؤں کے اپنے دوست بادل کے ساتھ کوسی ندی میں نہانے گئے تھے اس وقت دوپہر ڈھائی بجے تھے دونوں دوست پانی میں نہانے کے لیے اترے لیکن گہرائی زیادہ ہونے کی وجہ سے اچانک ڈوبنے لگے۔’
سٹیشن انچارج کا مزید کہنا ہے کہ ‘تفتیش کے دوران پتہ چلا کہ ان دونوں لڑکوں کو ڈوبتے ہوئے دیکھ کر قریب ہی کھیت میں موجود فرقان نے انھیں بچانے کے لیے ندی میں چھلانگ لگا دی، فرقان نے بادل کو باہر نکالا، لیکن جب وہ سُمت کو بچانے کے لیے دوبارہ دریا میں اترا تو وہ بھی اس کے ساتھ دریا میں ڈوب گیا، شام 5.30 بجے کے قریب دونوں کی لاشیں دریا سے نکالی گئیں ان کے لواحقین بغیر پوسٹ مارٹم کیے لاشیں اپنے ساتھ لے گئے۔’
گاؤں کے سربراہ مہیش پال سینی نے بی بی سی سے بات کرتے ہو ئے کہا یہ بہت دردناک حادثہ تھا، اس میں دو بچوں کی موت ہوئی ہے۔ مرنے والوں میں سے ایک ہمارے گاؤں کے چوہان خاندان سے تعلق رکھنے والا سُمت ہے، جب کہ دوسرا بچہ فرقان، اکبر آباد کے رہائشی چھوٹے کا بھتیجا ہے۔’
انھوں نے یہ بھی کہا ‘سُمت اور بادل کو بچانے کی کوشش کرتے ہوئے، فرقان بھی ڈوب گیا۔‘
اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے سُمت کے دادا رام اوتار کہتے ہیں، ‘دیکھو فرقان نے سُمت کی جان بچانے کے لیے اپنی جان قربان کر دی، اس سے بڑی کوئی چیز نہیں ہو سکتی، سُمت اپنے گھر اور گاؤں کا اکلوتا بیٹا تھا، وہ گاؤں کے ہی سکول میں آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ اب گھر میں اس کی صرف ایک چھوٹی بہن رہ گئی ہے۔’
دوسری جانب بادل کو علاقے کے نجی ہسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔ بی بی سی نے ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان سے رابطہ نہیں ہو سکا۔ گاؤں والوں کے مطابق بادل کے والد کا انتقال ہو گیا ہے۔ گھر میں صرف دو بھائی اور ماں ہیں۔
‘اپنے جگر کا ٹکڑا کہاں سے لائیں’
حادثے کے دن فرقان اکبر آباد میں اپنے ماموں کے پاس آئے تھے۔ ویسے ان کا گاؤں وہاں سے دس کلومیٹر دور تھا۔
فرقان کے گھر والوں سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو ان کے بڑے بھائی گلفام نے بتایا کہ ہمیں اکبر آباد سے ایک رشتہ دار کا فون آیا تھا، انھوں نے بتایا کہ فرقان کی موت ڈوبنے سے ہوئی ہے، جب ہم وہاں پہنچے تو لوگ اس بات کا ذکر کر رہے تھے کہ کس طرح فرقان نے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر بادل کی جان بچائی اور سُمت کو بچانے کی کوشش کی لیکن اس دوران وہ بھی ڈوب گیا اور اس کی موت ہو گئی اپنے جگر کا ٹکڑا کہاں سے لائیں؟‘
فرقان گھر کا سب سے چھوٹا بچہ تھا جو دہلی میں فوٹو گرافی کا کام کرتا تھا۔ ان کے والد افسر علی ایک کسان تھے اور بڑے بھائی مستری ہیں۔
سُمت کے والد فرقان کے احسانات کا اعتراف کر رہے ہیں
اس واقعے میں سُمت اور فرقان دونوں کی موت ہو گئی ہے، لیکن سُمت کے والد سنجیو کمار فرقان کے لیے احترام کا جذبہ ظاہر کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ دیکھو میرا بیٹا اب اس دنیا میں نہیں رہا، فرقان بھی نہیں رہا، لیکن جس طرح اس نے سُمت کو بچانے کی کوشش میں اپنی جان گنوا دی ایسا کون کرتا ہے، ہمیں اس کے گھر والوں کو تسلی دینے کے لیے اس کے گھر بھی جانا ہے۔’
سنجیو کمار مزدوری کرتے ہیں اور اپنے بیٹے کو یاد کر کے بار بار رو پڑتے ہیں۔
انسانیت کا رشتہ سب سے بڑا ہے
اس حوالے سے سمُت کے رشتہ دار رام اوتار کا کہنا ہے کہ ‘فرقان نے بڑی جرت اور انسانیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ انسانیت کا رشتہ سب سے بڑا ہے۔’
علاقے میں جہاں ان دونوں کی موت پر سوگ منایا جا رہا ہے وہیں فرقان کی ہمت اور بہادری کے بھی چرچے ہو رہے ہیں۔