یہ سیارہ پہلے ہی اپنے جہنم نما ماحول کی وجہ سے جانا جاتا تھا. لیکن اس کی ایک اور خصوصیت حال ہی میں سامنے آئی ہے. جس کے مطابق اس سیارے میں گندے انڈوں جیسی بدبو ہے۔
امریکا کی جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے جیمز ویب ٹیلی سکوپ سے اعداد و شمار لے کر ایچ ڈی 189733 بی نامی ایگزو سیارے کا معائنہ کیا۔
یاد رہے کہ ’ایگزو پلینٹ‘ وہ سیارے ہوتے ہیں جو نظام شمسی سے باہر موجود ہوتے ہیں۔ ایچ ڈی 189733 بی نامی اس سیارے کا حجم مشتری جتنا ہے۔
اس سیارے کے ماحول میں ہائیڈروجن سلفائیڈ کے اثرات موجود ہیں جس کی وجہ سے یہاں گندے انڈوں کی مخصوص بدبو رہتی ہے۔
تحقیق
جانز ہاپکنز کے ایسٹرو فزسٹ ڈاکٹر گوانگ وے فو، جنھوں نے اس تحقیق کی قیادت کی ہے، نے بتایا کہ ‘اگر آپ کی ناک 1000 ڈگری سینٹی گریڈ پر کام کر سکتی ہوتی. تو آپ کو ماحول میں سڑے ہوئے انڈوں کی بو آتی۔’
ڈاکٹر فو نے بتایا کہ ایچ ڈی 189733 بی سنہ 2005 میں دریافت ہوا تھا اور یہ سیارہ زمین سے 64 نوری سال دور ہے۔ اسے ’گرم مشتری‘ بھی کہتے ہیں. اور یہ زمین سے سب سے قریب ایگزو پلینٹ ہے جس کا ماہر فلکیات مشاہدہ کر سکتے ہیں۔
جس طرح نظام شمسی میں سورج ہمارا ستارہ ہے، اسی طرح اس ایگزو پلینٹ کا بھی ایک ستارہ ہے۔ یہ سیارہ اپنے ستارے سے عطارد اور سورج کے درمیان فاصلے کے مقابلے میں 13 گنا زیادہ قریب ہے. اور اپنے مدار کا ایک چکّر مکمل کرنے میں اس سیارے کو زمین کے حساب سے دو دن لگتے ہیں۔
اس کا درجہ حرارت لگ بھگ 1000 ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے. اور یہاں 8000 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے چلنے والی ہواؤں کے ساتھ کرسٹل کی بارش ہوتی ہے۔
’ہم زندگی کی تلاش نہیں کر رہے‘
ایچ ڈی 189733 بی پر ہائیڈروجن سلفائیڈ کی دریافت کسی بھی ایگزو پلانٹ پر ہائیڈروجن سلفائیڈ کی پہلی دریافت میں سے ایک ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ یہاں ہائیڈروجن سلفائیڈ کی موجودگی یہ پتہ لگانے میں مدد کر سکتی ہے کہ سیارے بنتے کیسے ہیں۔
ڈاکٹر فو نے کہا کہ ’ہم اس سیارے پر زندگی کی تلاش نہیں کر رہے ہیں کیونکہ یہ بہت گرم ہے لیکن ہائیڈروجن سلفائیڈ کا ملنا دیگر سیاروں پر اس مالیکیول کی تلاش کی طرف ایک قدم ہے۔ اس مالیکیول کے ملنے سے ہم اپنی معلومات بہتر کر سکتے ہیں کہ مختلف اقسام کے سیارے کس طرح بنتے ہیں۔‘
ایچ ڈی 189733 بی کے ماحول میں ہائیڈروجن سلفائیڈ کا پتہ لگانے کے علاوہ، سائنسدانوں نے سیارے میں آکسیجن اور کاربن کے اہم ذرائع یعنی پانی، کاربن ڈائی آکسائیڈ اور کاربن مونو آکسائیڈ کی بھی پیمائش کی۔
ڈاکٹر فو نے کہا کہ ’پیچیدہ مالیکیولز بنانے کے لیے سلفر ایک اہم عنصر ہے اور کاربن، نائٹروجن، آکسیجن اور فاسفیٹ کی طرح، سائنسدانوں کو اس کا مزید مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ سمجھ سکیں کہ سیارے کیسے بنتے ہیں اور وہ کس چیز سے بنے ہیں۔‘
دھاتوں کا راز
محققین نے ایج ڈی 189733 بی میں میتھین کی موجودگی کو مسترد کر دیا ہے۔
نیپچیون اور یورینس جیسے سیاروں میں ان بڑے سیاروں کے مقابلے میں زیادہ دھاتیں پائی جاتی ہیں. جہاں گیس کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔
دھاتوں کی موجودگی سے پتہ چلتا ہے سیارہ کہ نیپچون اور یورینس نے تشکیل. کے ابتدائی ادوار میں ہائیڈروجن اور ہیلیئم جیسی گیسوں کی نسبت زیادہ برف، چٹانیں اور دیگر بھاری عناصر کو اکھٹا کیا۔
ڈاکٹر فو نے وضاحت کی کہ سائنسدان اس بات کا تعین کرنا چاہتے ہیں. کہ آیا یہی بات ایگزو پلینٹس کے لیے بھی درست ہے۔
انقلابی ٹیلی سکوپ
جیمز ویب ٹیلیسکوپ دور دراز سیاروں پر دیگر کیمیکلز کی موجودگی کے تجزیے کے لیے. نئے امکانات پیدا کر رہا ہے۔اس کی مدد سے ماہرین فلکیات کو ان سیاروں کے آغاز کے بارے میں نئی معلومات مل رہی ہیں۔
ڈاکٹر فو نے کہا کہ ’ٹیلی سکوپ فلکیات کے میدان میں انقلاب لا رہی ہے. اور ناصرف اس نے وہ سارے کام کیے جس کی ہمیں امید تھی. بلکہ اس نے کچھ وہ بھی کام کیے. جو ہم سوچ بھی نہیں رہے تھے۔‘
آنے والے مہینوں میں ڈاکٹر فو کی ٹیم اس خلائی ٹیلی سکوپ کے ذریعے سلفر اور مزید ایگزو پلینٹس کا پتہ لگائے گی۔
یہ تحقیق عالمی جریدے ’نیچر‘ میں شائع ہوئی ہے۔
اگرچہ ہائیڈروجن سلفائیڈ ان گیسوں میں سے ایک ہے. جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے. کہ دور دراز کے سیارے اجنبی جانداروں کو پناہ دے سکتے ہیں. لیکن محققین اس سیارے پر زندگی کی تلاش نہیں کر رہے ہیں. کیونکہ یہ بہت زیادہ گرم ہے۔