چالیس برس گزر جانے کے باوجود پینی لی ڈین کو شدید سردی کا وہ احساس آج بھی اچھی طرح سے یاد ہے۔
ڈین سنہ 1978 میں انگلش چینل میں تیراکی کے ایک مقابلے کے لیے تیاری کر رہی تھیں اور اس کے لیے ٹریننگ انتہائی مشکل تھی۔
وہ یاد کرتی ہیں. کہ ’آپ کے ہاتھوں اور ٹانگوں میں کریمپ پڑ جاتے ہیں۔‘
تیراکی کی پریکٹس کے بعد جب وہ پانی سے باہر نکلیں تو انھیں دوبارہ گرم محسوس کرنے میں گھنٹوں لگتے۔ 20 منٹ کا گرم شاور یا گرم پانی کے ٹب میں ڈبکی لگانا کافی نہیں تھا۔
ہڈیوں کو لرزا دینے والی یہ سردی ایک ریکارڈ توڑنے والی تیراک کے طور پر ان کی کامیابی کے لیے ضروری تھی۔
شدید ترین موسم کو برداشت کر لینا ایک ایسی صلاحیت ہے، جس کا کھیلوں کے شعبے میں خواتین کو فائدہ ہوتا ہے کیونکہ ان میں چربی کی تقسیم، شدید ٹھنڈے پانی میں جسم کے درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔
شوٹنگ
ڈین کا ماننا ہے کہ خواتین میں تکلیف برداشت کرنے کی صلاحیت بھی زیادہ ہوتی ہے۔
درحقیقت شوٹنگ سے لے کر الٹرا رننگ (دوڑ کے مقابلے). تک مختلف مسابقتی مقابلوں میں خواتین مردوں کی طرح ہی کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتی ہیں۔
تاہم کھیلوں کے شعبے میں خواتین کی زیادہ شمولیت کوئی آسان چیز نہیں. اور اب بھی ایتھلیٹکس میں جنس کے کردار کے بارے میں جوابات سے زیادہ سوالات ہیں۔
ایک مشکل موازنہ
آرٹک یونیورسٹی آف ناروے میں سپورٹس سائنس کے پروفیسر اور نارویجن سکول آف ایلیٹ سپورٹ کے ڈائریکٹر اوئیوند سینڈبیک نے اپنے ساتھیوں کے. ساتھ مل کر دریافت کیا کہ خواتین اور مرد کھلاڑیوں کے درمیان اوسط کارکردگی میں فرق بڑھ گیا ہے۔
اس مطالعے کے مطابق یہ فرق انتہائی برداشت والی تیراکی میں نمایاں طور پر کم جبکہ ایسے کھیل، جس میں جسم کے اوپری حصے کی کافی مضبوطی شامل ہو، میں کافی زیادہ ہو سکتا ہے۔
صنفی بنیادوں پر تعصب کی وجہ سے ایک دوسرے کے مدمقابل آنے والے کھلاڑیوں کی تعداد بھی محدود ہو سکتی ہے۔
دقیانوسی تصورات کی وجہ سے ایسے کھیل جن کا تعلق ’خوبصورتی‘ سے ہو، انھیں خواتین سے منسوب کیا جاتا ہے جبکہ بہت سے معاشروں میں مارشل آرٹس. یا باکسنگ کو خواتین کے کھیل کے طور پر قبول نہیں کیا جاتا۔
پیرس اولمپکس
واضح رہے کہ پیرس اولمپکس میں کوئی بھی. مرد کھلاڑی آرٹسٹک تیراکی میں حصہ نہیں لے رہا۔
پروفیسر سینڈبیک اس بات پر زور دیتے ہیں. کہ کھیلوں کے شعبے. میں خواتین اور مردوں کے درمیان فرق کرنے والے حیاتیاتی اور سماجی پہلوؤں کو الگ کرنا بھی بہت مشکل ہے۔ اس میں کھیلوں کے شعبے میں مواقع تک غیر مساوی رسائی شامل ہے۔
اس کے باوجود طویل فاصلہ طے کرنے والے کھیلوں میں رفتار اور پیسنگ خواتین کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔
سینڈبیک کہتے ہیں. کہ خواتین عموماً بہتر پیسر ہوتی ہیں، مثال کے طور پر میراتھن میں لیکن مقابلہ کرنے کی. صلاحیت صرف فزیالوجی پر منحصر نہیں بلکہ سماجی حالات اور نفسیات بھی اس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
زیادہ تر تحقیقات میں بچوں میں ایتھلیٹک صلاحیتوں پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے. تاہم کچھ اشاریے اس بات کی نشاندہی بھی کرتے ہیں کہ ہیں کہ لڑکیوں کے اردگرد کا ماحول ان میں مقابلے کی صلاحیت کو متاثر کر سکتا ہے۔
امریکہ کے کالج آف سپورٹس میڈیسن کے سنہ 2023 میں جاری کردہ ایک سائنسی اتفاق رائے کے مطابق بلوغت سے قبل لڑکیوں اور لڑکوں کے درمیان ایتھلیٹک کارکردگی میں فرق ’کم سے کم‘ ہوتا ہے تاہم جو بعد میں بڑھتا چلا جاتا ہے۔