جب خلیجی ریاست قطر 2022 کے ورلڈ کپ کے میزبان کے طور پر سامنے آئی۔ تو ساتھ ہی یہ سوال بھی اٹھا کہ ایک ایسے ملک میں کھلاڑی اور شائقین موسم سے کیسے نبٹیں گے۔ جہاں درجۂ حرارت 40 ڈگری سیلسیئس سے زیادہ رہتا ہے۔
ٹورنامنٹ کو موسم سرما میں منتقل کرنا ایک جواب تھا۔ لیکن اس امیر صحرائی قوم نے ساتھ ہی ساتھ ایک ایسی تبدیلی سے بھرپور میراث کا وعدہ بھی کیا۔ یہ ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جو گرم ترین ممالک میں بھی سارا سال کھیلوں کے بڑے مقابلوں کا انعقاد ممکن بنائے گی۔ مقامی فٹبالر حجر صالح کا کہنا ہے۔ کہ ان کے ملک میں گرمی اور نمی والے موسم میں کھیلنا ایک بڑا چیلنج ہے۔
قطر میں موسم گرم اور مرطوب ہو سکتا ہے۔ اور سمندر سے آنے والی گرم ہوا ساری ریاست کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔
پہلا چیلنج گرم ہوا کو باہر رکھنا ہے۔ الجنوب سٹیڈیم میں چھت کو ایسے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ کہ ہوا اس کے اردگرد سے نکل جائے۔ اس کا ہلکا رنگ بھی سورج کی روشنی کو کم جذب کرتا ہے۔ میدان اور سٹینڈز کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے کچھ اختراعی حل درکار ہیں۔
میچ کے دنوں میں، 40 ہزار لوگ سٹینڈز کو بھرتے ہیں۔ اور ان میں سے ہر ایک گرمی اور نمی کا ذریعہ ہے۔ قطر کے درجہ حرارت اور سٹیڈیم کے اندر پیدا ہونے والی گرمجوشی کے گھٹن والا امتزاج میں ایک موثر کولنگ سسٹم لازماً درکار ہے سٹینڈز میں فٹ بال کے شائقین کو ہر سیٹ کے نیچے موجود وینٹ کے ذریعے ہوا پہنچا کر ٹھنڈا رکھا جائے گا۔