سیکسومینیا: نیند کے دوران ریپ کا مقدمہ جس میں متاثرہ خاتون کو 35 ہزار پاؤنڈ ہرجانہ ملا

0
1

32 سالہ جیڈ بلیو نے سنہ 2017 میں پولیس سے رابطہ کیا اور بتایا کہ انھیں لگتا ہے کہ نیند کے دوران ان کا ریپ کیا گیا۔

جیڈ نے پولیس کو بتایا کہ ان کی آنکھ کھلی تو وہ نیم برہنہ تھیں اور ان کے گلے کا ہار زمین پر ٹوٹا ہوا ملا لیکن ریپ کا یہ مقدمہ نہ چلا سکا بلکہ اسی دوران یہ دعوے سامنے آئے کہ جیڈ کے ساتھ سیکسومینیا کا واقعہ ہوا ہے تاہم اب انھیں 35 ہزار ڈالر ہرجانہ ملا ہے۔

یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا جب برطانیہ کی کراؤن پراسیکیوشن سروس نے مقدمہ کی سماعت سے چند ہی دن قبل اس وقت اس کی پیروی سے ہاتھ کھینچ لیا جب مبینہ ملزم کے وکلا نے دعوی کیا کہ جیڈ کو ایک ایسا نایاب طبی مسئلہ درپیش ہے جس میں متاثرہ فرد سوتے ہوئے جنسی عمل کرتا ہے۔ اس طبی حالت کو سیکسومینیا کا نام دیا گیا ہے۔

تاہم اب کراؤن پراسیکیوشن سروس نے جیڈ کو ہرجانہ ادا کرتے ہوئے معافی مانگی ہے اور کہا ہے کہ وہ زندگی بدل دینے والے جرائم جیسا کہ ریپ سے نمٹنے کے طریقوں کو بہتر کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔

جیڈ، جن کے لیے یہ ادائیگی بڑی فتح ہے، کے وکلا کا کہنا ہے کہ کراؤن پراسیکیوشن سروس کی جانب سے اس طرح کسی کو ادائیگی کرنا بہت شازونادر ہی ہوتا ہے۔

جب جیڈ کی دنیا الٹ گئی

2017 کی اس رات جیڈ اپنے دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے کے بعد سوئیں تو اچانک ان کی آنکھ اس احساس کے ساتھ کھلی کہ جیسے کسی نے ان کا سوتے میں ریپ کیا۔

چند ہی گھنٹے میں وہ پولیس تک اپنی شکایت پہنچا چکی تھیں۔ ان کی نشاندہی کے بعد پولیس نے ملزم سے پوچھ گچھ کی تو اس نے کوئی بھی جواب دینے سے انکار کر دیا۔ کراؤن پراسیکیوشن سروس نے اس وقت فیصلہ کیا کہ ملزم پر ریپ کی فرد جرم عائد کی جائے۔

تاہم تین سال بعد مقدمہ کی باقاعدہ سماعت سے قبل کراؤن پراسیکیوشن سروس کی جانب سے جیڈ کو مطلع کیا گیا کہ اب اس کی پیروی نہیں کی جائے گی کیونکہ ملزم کے وکلا نے دعوی کیا ہے کہ ان کے ساتھ سیکسومینیا کا واقعہ پیش آیا۔

جیڈ بلیو

کراؤن پراسیکیوشن سروس نے یہ وضاحت بھی دی کہ دو ماہرین نے اس معاملے پر اپنی رائے بھی دی ہے۔ اس سے قبل پولیس جیڈ سے ان کی نیند کے بارے میں سوالات کر چکی تھی. تاہم ان ماہرین میں سے کسی نے بھی جیڈ سے بات نہیں کی تھی۔

سیکسومینیا

جیڈ کا دعویٰ تھا کہ ان کو سیکسومینیا لاحق نہیں۔ اس کے باوجود ملزم بری اور مقدمہ بند ہو گیا۔

2021 میں جیڈ نے ایک اپیل دائر کی جس کے جواب میں ان کو کراؤن پراسیکیوشن سروس کے ایک غیر متعلقہ رکن کی جانب سے ایک معافی نامہ وصول ہوا جن کا تعلق اس شعبے سے نہیں تھا. جس نے ان کا مقدمہ بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

اس خط میں اعتراف کیا گیا تھا کہ کراؤن پراسیکیوشن سروس نے ان کا مقدمہ بند کرنے میں غلطی کی۔ جیڈ کہتی ہیں کہ کراؤن پراسیکیوشن سروس کا یہ فیصلہ ان کے لیے واقعے کی رات سے بھی زیادہ نقصان دہ تھا. اور قانونی عمل نے ان کی زندگی الٹ کر رکھ دی۔

ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے کراؤن پراسیکیوشن سروس کے خلاف مقدمہ اس ارادے سے. کیا کہ ان کو احتساب چاہیے تھا اور اس لیے. بھی کہ ایسی غلطیاں مستقبل میں کسی اور کے ساتھ نہ ہوں۔

وہ کہتی ہیں. کہ ’میرے لیے یہ پیسے سے جڑا معاملہ نہیں تھا۔ میں چاہتی تھی کہ نظام بدلے اور نظام قانون. بہتر تربیت، پالیسیوں اور عمل کی جانب بڑھے۔‘

ہرجانے کا دعوی

جیڈ کا مقدمہ سینٹر فار وومین جسٹس نے کیا تھا جس کی سربراہ کیٹ ایلس کا کہنا ہے کہ ہرجانے کا دعوی پہلا موقع تھا جب کراؤن پراسیکیوشن سروس نے کسی کو اس طرح سے مقدمہ بند کرنے پر ادائیگی کی۔

واضح رہے کہ مارچ 2024 تک رواں سال کے دوران انگلینڈ اور ویلز میں 65 ہزار سے زیادہ ریپ کیس پولیس تک پہنچے۔ ان میں سے صرف 2.6 فیصد میں ہی ملزم پر فرد جرم عائد ہو سکی۔

کراؤن پراسیکیوشن سروس کے ایک ترجمان نے بیان دیا کہ جیڈ سے ہم نے معافی مانگی. اور ہم تسلیم کرتے ہیں. کہ متاثرین کے لیے نظام کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے. تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اعتماد کے ساتھ ایسے معاملات رپورٹ کر سکیں۔

جیڈ کہتی ہیں. کہ انھیں امید ہے کہ ان کی کہانی سے اور لوگوں کو اپنی آواز بلند کرنے میں مدد ملے گی۔

وہ کہتی ہیں. کہ ان ایجنسیوں کا احتساب ہونا چاہیے اور اب ہم نے یہ کر دکھایا ہے۔

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.