انڈیا میں پولیس نے اتوار کو بتایا کہ مفرور سکھ علیحدگی پسند رہنما امرت پال سنگھ کو ایک ماہ سے زائد عرصے تک جاری رہنے والے بڑے سرچ آپریشن کے بعد گرفتار کر لیا گیا۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ریاست پنجاب کی پولیس نے ٹویٹ میں بتایا۔ کہ ’امرت پال سنگھ کو پنجاب کے موگا قصبے سے گرفتار کیا گیا ہے۔
’ہم شہریوں سے امن اور ہم آہنگی برقرار رکھنے کی اپیل کرتے ہیں۔ کوئی بھی غلط خبریں شیئر نہ کرے، ہمیشہ تصدیق کریں اور پھر شیئر کریں۔‘
ایک سکھ مذہبی رہنما جسبیر سنگھ روڈے نے بتایا کہ امرت پال سنگھ نے موگا میں سکھوں کی عبادت گاہ میں صبح کو عبادت کرنے کے بعد پولیس کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ جس کے بعد پولیس انہیں ساتھ لے گئی۔
حکام نے پنجاب میں امرت پال کو پکڑنے کے لیے ہزاروں نیم فوجی دستوں کو تعینات کیا تھا۔
پولیس نے ان پر اور ان کے ساتھیوں پر لوگوں میں بدامنی پھیلانے۔ قتل کی کوشش کرنے، پولیس اہلکاروں پر حملہ کرنے اور سرکاری ملازمین کی ڈیوٹی کی ادائیگی میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام لگایا ہے۔
انڈیا کے انگریزی اخبار ہندوستان ٹائمز کے مطابق موگا۔ پولیس نے ابھی تک گرفتاری کی تفصیلات نہیں بتائیں۔
تاہم پولیس ذرائع نے ہندوستان ٹائمز کو بتایا۔ کہ خالصتان کے حامی رہنما کو آسام کی ڈبرو گڑھ جیل میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ جہاں اس تنظیم کے دیگر ارکان پہلے ہی قید ہیں۔
رپورٹ کے مطابق۔ امرت پال سنگھ کو قومی سلامتی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ گرفتاری پنجاب پولیس اور نیشنل انٹیلی جنس کی مشترکہ کوششوں سے عمل میں آئی۔
وزیر داخلہ امت شاہ
ہفتے کو مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ سے جب امرت پال سنگھ کی گرفتاری کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا تھاـ ’یہ کسی بھی وقت ہو سکتا ہے۔ پہلے وہ آزادانہ گھومتے تھے لیکن اب وہ اپنی سرگرمیاں جاری نہیں رکھ سکتے۔‘
امرت پال سنگھ کے دو مزید ساتھیوں کو 18 اپریل کو پنجاب اور دہلی پولیس کی مشترکہ کارروائی میں پنجاب کے موہالی شہر سے گرفتار کیا گیا تھا۔
اس سے قبل 15 اپریل کو پنجاب پولیس نے ان کے قریبی ساتھی جوگا سنگھ کو فتح گڑھ صاحب سے گرفتار کیا تھا۔
امرت پال سنگھ کو رواں سال مارچ میں مفرور قرار دیا گیا تھا (اے ایف پی)
خالصتان تحریک کے ایک اور حامی رہنما پاپل پریت سنگھ کو۔ جو امرت پال کے قریبی معاون ہیں۔ 10 اپریل کو پنجاب پولیس اور انٹیلی جنس یونٹ کے ذریعے کیے گئے ایک آپریشن میں گرفتار کیا گیا تھا۔
امرت پال سنگھ کو اس وقت ’مفرور‘ قرار دیا گیا۔ جب وہ مارچ میں غائب ہو گئے تھے۔
تقریباً ایک ماہ قبل پنجاب پولیس نے ‘وارث پنجاب دے’ نامی تنظیم کے سربراہ کے خلاف ایک لک آؤٹ سرکلر (ایل او سی) اور ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کیا تھا۔
یہ تنظیم وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کی متنازع زرعی اصلاحات کے خلاف کسانوں کو متحرک کرنے کی ایک بڑی مہم کا حصہ تھی۔
پنجاب ميں تحريک
امرت پال 18 مارچ سے مفرور ہیں۔ جب کہ پنجاب پولیس بڑے پیمانے پر ان کی تلاش کر رہی تھی۔
یہ کریک ڈاؤن تقریباً تین ہفتوں کے بعد ہوا جب امرت پال کے حامیوں نے 23 فروری کو تنظیم کے ساتھی لوپریت طوفان کی رہائی کے لیے امرتسر کے اجنالہ پولیس سٹیشن پر دھاوا بول دیا تھا۔
امرت پال کے تقریباً 100 حامیوں کو گرفتار کرنے کے علاوہ ان کی اہلیہ کو گذشتہ ہفتے ہندوستان چھوڑنے سے روک دیا گیا تھا۔
امرت پال سنگھ کے بارے میں بہت کم معلوم تھا۔ جب تک کہ وہ 2022 میں ریاست پنجاب نہیں پہنچے اور انہوں نے سکھوں کے حقوق کے تحفظ کا مطالبہ کرتے ہوئے مارچ کی قیادت شروع کی۔، جو ہندوستان کی آبادی کا تقریباً 1.7 فیصد ہیں۔
ان کا دعویٰ ہے۔ کہ وہ ایک سکھ عسکریت پسند رہنما جرنیل سنگھ بھنڈرانوالے سے متاثر ہیں، جن پر ہندوستانی حکومت نے 1980 کی دہائی میں خالصتان کے لیے مسلح بغاوت کی قیادت کرنے کا الزام لگایا تھا۔
بھنڈرانوالے اور ان کے حامیوں کو 1984 میں اس وقت مار دیا گیا۔ جب انڈین فوج نے سکھ مذہب کے سب سے مقدس عبادت گاہ گولڈن ٹیمپل پر دھاوا بولا۔
اے ایف پی کے مطابق امرت پال سنگھ لمبی داڑھی کے ساتھ بھنڈرانوالے کے جیسا لباس پہنتے ہیں۔