ایران میں پولیس حراست کے دوران نوجوان خاتون کی ہلاکت پر ملک بھر میں جاری مظاہروں میں چھٹے روز مزید شدت آگئی۔ جہاں تہران اور ایران کے کئی دیگر شہروں میں مظاہرین نے پولیس اسٹیشنوں اور گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا۔
برطانوی خبررساں ادارے ‘رائٹرز’ کی ۔رپورٹ کے مطابق۔ 22 سالہ مہسا امینی کو اخلاقی پولیس نے ‘غیر موزوں لباس’ کے باعث گرفتار کیا تھا، حراست کے دوران وہ کومہ میں چلی گئی تھی۔ جہاں وہ انتقال کرگئی۔
حکام نے کہا ہے کہ وہ 22 سالہ خاتون کی موت کی وجوہات کی تحقیقات شروع کریں گے۔ مہسا امینی کی موت نے عوام میں شدید غم و غصے اور ایران میں 2019 کے بعد بدترین مظاہروں کو جنم دیا ہے۔
شمال مشرقی علاقے میں مظاہرین نے ایک پولیس اسٹیشن کے قریب مظاہرہ کیا۔ جس میں مظاہرین نے نعرے لگائے کہ ‘ہم مر جائیں گے۔ ہم مر جائیں گے لیکن ہم ایران کو واپس لائیں گے’ کے نعرے لگائے بعد ازاں۔ اس پولیس اسٹیشن کو آگ لگا دی گئی۔
مہسا امینی کے آبائی صوبے کردستان سے بدامنی پھیلتے ہی دارالحکومت تہران میں ایک اور پولیس اسٹیشن کو نذر آتش کر دیا گیا۔
حاليہ احتجاج کی وجہ
حالیہ احتجاجی لہر کے باعث ایران کے حکمرانوں کو پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف ہونے والے 2019 کے احتجاج جیسی صورتحال کا خدشہ ہے۔ جو اسلامی جمہوریہ کی تاریخ کا سب سے خونریز احتجاج تھا۔ خبر رساں ادارے رائٹرز نے 1500 افراد کی ہلاکت رپورٹ کی تھی۔
مظاہرے زیادہ تر ایران کے کرد آبادی والے شمال مغربی علاقوں میں جاری ہیں۔ لیکن اب یہ سلسلہ دارالحکومت اور ملک بھر کے کم از کم 50 شہروں اور قصبوں تک پھیل چکے ہیں۔ جب کہ پولیس مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کر رہی ہے۔