انڈیا: دو بہنوں کو ریپ کرنے کے بعد قتل کر دیا گیا، لاشیں درخت سے لٹکتی ہوئی ملیں

بھارتی ریاست اتر پردیش میں دو نوعمر بہنوں کی لاشیں درخت سے لٹکتی ہوئی پائی گئی ہیں جنھیں مشتبہ طور پر ریپ کرنے کے بعد قتل کیا گیا ہے۔

اترپرديش
اترپرديش دو بہنوں کو ریپ کرنے کے بعد قتل کر دیا گیا

پولیس نے بتایا کہ یہ لاشیں بدھ کی دوپہر لکھیم پور ضلع میں پائی گئیں۔ لڑکیوں کے رشتہ داروں کے اس الزام کے بعد کہ انھیں اغوا کر کے ریپ کیا گیا۔ اور پھر قتل کر دیا گی ہے۔ پولیس نے تحقیقات شروع کر دی ہیں۔

ریپ اور قتل کے الزام میں چھ مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

متاثرين کا بيان

اتر پردیش پولیس کا کہنا ہے کہ وہ موت کی تحقیقات کر رہی ہے۔ اور پوسٹ مارٹم کے نتائج کا انتظار ہے۔ دونوں لڑکیاں، جن کی عمریں 18 سال سے کم تھیں، ہندؤوں کے ذات پات کے نظام میں انتہائی نچلی ذات، دلِت، سے تعلق رکھتی تھیں۔

آئینی تحفظات کے باوجود اس ذات کے لوگوں کو اکثر تعصب اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 2020 میں اتر پردیش کے ہاتھرس ضلع میں ایک 19 سالہ دلت خاتون کے ساتھ اجتماعی ریپ اور قتل سے متعلق ایک کیس کے نتیجے میں عوامی سطح پر بہت احتجاج کیا گیا تھا۔ یہ واقعہ اس حقیقت کو نمایاں کرتا ہے۔ کہ نچلی ذات کی عورتوں کو کتنا شدید خطرہ لاحق رہتا ہے۔

اس واقعے کے بعد بھی مقامی لوگوں اور اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ پولیس نے کہا کہ لڑکیاں ملزم کو جانتی تھیں لیکن اہل خانہ نے اس سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ انھیں اغوا کیا گیا ہے۔

مقامی میڈیا نے بتایا کہ لڑکیوں کی والدہ نے کہا کہ دونوں بہنوں کو چند مرد موٹر سائیکلوں پر لے گئے تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ جب انھوں نے انھیں بچانے ۔کی کوشش کی تو ان پر حملہ کیا گیا۔

اہل خانہ نے بتایا کہ انھوں نے لڑکیوں کی تلاش شروع کی اور آخر کار ان کی درخت سے لٹکتی ہوئی لاشیں ملیں۔

ضلعی پولیس سربراہ سنجیو سمن نے بتایا کہ لڑکیوں کو گنّے کے کھیت میں لے جایا گیا۔ جہاں انھیں ریپ کیا گیا اور گلا دبا کر قتل کر دیا گیا۔

این ڈی ٹی وی چینل کے مطابق سنجیو سمن نے مزید کہا۔ کہ ’ملزمان نے پھر ان کی لاشوں کو درخت سے لٹکا دیا تاکہ یہ خودکشی لگے۔‘

پوليس کا موقف

پولیس نے بتایا کہ ایک ملزم کو ’پولیس مقابلے‘ کے بعد گرفتار کیا گیا۔ جب وہ فرار ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔

مقامی میڈیا کے مطابق بدھ کی رات جب وہ لڑکیوں کے گھر گئی تو پولیس کو کچھ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، جہاں مقامی لوگ احتجاج میں اہل خانہ کے ساتھ شامل ہو گئے تھے۔

دلت برادری کو پولیس کی غیر جانبداری پر گہرا شک ہے۔ ہاتھرس میں حملے کے بعد حکام پر بے حسی اور اعلیٰ ذات کے ملزمان کو تحفظ فراہم کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ ہلاک ہونے والی لڑکیوں کے اہل خانہ نے یہ بھی الزام لگایا کہ پولیس نے رشتہ داروں کو آخری دیدار کرنے سے پہلے ہی دونوں لڑکیوں کی آخری رسومات کر کے جلا دیا تھا۔

اتر پردیش، انڈیا کے شمال میں، بیس کروڑ سے زیادہ آبادی کے ساتھ ملک کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست ہے اور اس میں خواتین اور دلتوں کے خلاف تشدد کا ایک طویل ریکارڈ چلا آرہا ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ تمام تر کوریج اور ریپ کے خلاف نئے قوانین کے باوجود، بھارت میں خواتین کے خلاف جرائم میں کمی کے آثار نظر نہیں آتے۔

دونوں بہنوں کی موت نے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کے خلاف غصے کو بھڑکا دیا ہے۔ اور اپوزیشن لیڈروں نے ان پر اتر پردیش میں لاقانونیت کی حکومت چلانے کا الزام لگایا ہے۔

سياسی کشمکش

سماج وادی پارٹی کے رہنما اکھلیش یادیو نے ٹویٹر پر لکھا۔ کہ ’یوگی حکومت میں، غنڈے ہر روز ماؤں بہنوں کو ہراساں کر رہے ہیں، بہت شرمناک، حکومت کو معاملے کی جانچ کرانی چاہیے، مجرموں کو سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے۔’

بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایاوتی نے کہا کہ اتر پردیش میں مجرموں کو کوئی خوف نہیں ہے۔ کیونکہ حکومت کی ’ترجیحات غلط ہیں۔‘

کانگریس پارٹی کی پرینکا گاندھی نے بھی آدتیہ ناتھ کو نشانہ بنایا۔ اور کہا کہ ’اخبارات اور ٹی وی میں جھوٹے اشتہار دینے سے امن و امان میں بہتری نہیں آتی ہے۔‘

پرینکا گاندھی نے سوال اٹھایا کہ آخر ریاست اترپردیش ہی۔ میں خواتین کے خلاف گھناؤنے جرائم کیوں بڑھ رہے ہیں؟

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.